History, asked by qiratsawati64, 9 months ago

۔ اللہ تعالی نے دنیا کو کیسی جگہ بنایا ہے؟
جواب​

Answers

Answered by VaishnaviTaware
0

Answer:

ایک مدیر کی رائے میں یہ مضمون کچھ نقطہ ہائے نظر سے غیر متوازن ہے ۔ براہِ کرم نظر انداز کردہ نقطہ نظر پر معلومات کا اضافہ کر کے مضمون کو بہتر بنائیں یا مضمون کے تبادلہ خیال صفحہ پر رائے دیں۔

1859ء میں چارلس ڈارون نے نظریہ ارتقاء پیش کیا۔ اس نظریے کے مطابق [1]حیاتی اجسام اپنی بقا کے لیے خود کو ماحول کے مطابق تبدیل کر لیتے ہیں۔ ڈارون نے اپنے نظریے میں انسان کی بات نہیں کی تھی مگر بہرحال اُس کا نظریہ ہر جاندار شے پہ لاگو ہوتا ہے بشمولجدخدجددج دجدخدخ جدجدب نی نوع انسان ک- ڈارون کے نزدیک تمام جاندار اپنی ہیت کو تبدیل کرتے رہتے ہیں اپنے اطراف کے ماحول میں زندہ رہنے کے لیے۔ مثال کے طور پر کہا جاتا ہے کہ بعض پانی کے جانور کروڑوں سال پہلے چرندے تھے مگر کسی وجہ سے اُن کو اپنی زندگی طویل عرصہ تک پانی میں گزارنی پڑی تو ان کے پاﺅں غائب ہو گئے اور وہ مچھلی کی طرح کی شکل اختیار کر گئے۔ اسی طرح مچھلیوں کو جب زمین پر زندگی گزارنی پڑی تو ان کے پاؤں نکل آئے اور ان کی شکل پہلے مگرمچھ اور پھر بعد میں دیگر جانداروں کی سی ہو گئی۔ یعنی اپنی بقاء کے لیے قدرت ﴿اللہ تعالٰیٰ نے نہیں) نے انکی جون تبدیل کر دی۔ اسی طرح انسان کے بارے میں نظریہ ارتقا کے حامی کہتے ہیں کہ انسان بن مانس کی نسل سے تھا جو اپنے ماحول کی وجہ سے تبدیل ہو کر ویسا ہو گیا جیسا کہ آج ہے۔ چمپینزی جیسے چو پائے سے دو پیروں پر انسان اس لیے کھڑاہو گیا کہ وہ اُس زمانے میں اور اُس وقت کے ماحول کے مطابق اُس کی بقاء کے لیے ضروری تھا۔ سننے میں تو یہ نظریہ بڑا دلچسپ ہے اور اسی لیے اس پر سینکڑوں کہانیاں اور کتابیں لکھی جچا چکی ہیں اور متعدد فلمیں بن چکی ہیں۔ مگر حقیقت اس کے قطعی برعکس ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعلٰی نے انسان کو بالکل اسی حلیے میں بنایا ہے جس میں وہ آج موجود ہے۔ دہریوں کہ نظریے اور ایمان کے بیچ سائنس حائل ہے جو اپنے نت نئے انکشافات سے ایمان کی تائید کرتی ہے۔ نظریہ ارتقا کے حامی ابھی بھی اس بات کا جواب نہیں دے سکتے کے حیات کی ابتدا کیسے ہوئی؟ جب بگ بینگ سے کائنات وجود میں آئی تو اُس میں جاندار مادّہ تو کوئی تھا نہیں۔ تو پھر زندگی کی ابتدا کیونکر ہوئی؟ کچھ کہتے ہیں کہ کسی کیمیائی عمل سے ایسا ہوا۔ تو اگر کیمیا گری سے زندگی وجود میں آ سکتی تو سائنس اتنی ترقی کرنے کا بعد علم کیمیا سے کو ئی معمولی نوعیت کا جاندار یا کیڑا پیدا کر کے کیوں نہیں دکھا دیتی؟ بہرحال بات ڈارون کے مشہور زمانہ اور ساتھ ہی انتہائی متنازع نظریہ ارتقا کی ہو رہی ہے۔ جو صرف وہاں سے شروع ہوتا ہے جہاں زندگی پہلے سے ہی موجود تھی۔ تفصیلی بحث میں جائے بغیر ہم انسانوں کے ارتقا کی طرف آتے ہیں۔ یعنی بن مانس سے مانس بننے کا سفر۔ موجودہ دور کے انسان کو سائنس ہوموسیپینز

Answered by sharwankumarjakhar
1

Answer:

نظریے کے مطابق [1]حیاتی اجسام اپنی بقا کے لیے خود کو ماحول کے مطابق تبدیل کر لیتے ہیں۔ ڈارون نے اپنے نظریے میں انسان کی بات نہیں کی تھی مگر بہرحال اُس کا نظریہ ہر جاندار شے پہ لاگو ہوتا ہے بشمولجدخدجددج دجدخدخ جدجدب نی نوع انسان ک- ڈارون کے نزدیک تمام جاندار اپنی ہیت کو تبدیل کرتے رہتے ہیں اپنے اطراف کے ماحول میں زندہ رہنے کے لیے۔ مثال کے طور پر کہا جاتا ہے کہ بعض پانی کے جانور کروڑوں سال پہلے چرندے تھے مگر کسی وجہ سے اُن کو اپنی زندگی طویل عرصہ تک پانی میں گزارنی پڑی تو ان کے پاﺅں غائب ہو گئے اور وہ مچھلی کی طرح کی شکل اختیار کر گئے۔ اسی طرح مچھلیوں کو جب زمین پر زندگی گزارنی پڑی تو ان کے پاؤں نکل آئے اور ان کی شکل پہلے مگرمچھ اور پھر بعد میں دیگر جانداروں کی سی ہو گئی۔ یعنی اپنی بقاء کے لیے قدرت ﴿اللہ تعالٰیٰ نے نہیں) نے انکی جون تبدیل کر دی۔ اسی طرح انسان کے بارے میں نظریہ ارتقا کے حامی کہتے ہیں کہ انسان بن مانس کی نسل سے تھا جو اپنے ماحول کی وجہ سے تبدیل ہو کر ویسا ہو گیا جیسا کہ آج ہے۔ چمپینزی جیسے چو پائے سے دو پیروں پر انسان اس لیے کھڑاہو گیا کہ وہ اُس زمانے میں اور اُس وقت کے ماحول کے مطابق اُس کی بقاء کے لیے ضروری تھا۔ سننے میں تو یہ نظریہ بڑا دلچسپ ہے اور اسی لیے اس پر سینکڑوں کہانیاں اور کتابیں لکھی جچا چکی ہیں اور متعدد فلمیں بن چکی ہیں۔ مگر حقیقت اس کے قطعی برعکس ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعلٰی نے انسان کو بالکل اسی حلیے میں بنایا ہے جس میں وہ آج موجود ہے۔ دہریوں کہ نظریے اور ایمان کے بیچ سائنس حائل ہے جو اپنے نت نئے انکشافات سے ایمان کی تائید کرتی ہے۔ نظریہ ارتقا کے حامی ابھی بھی اس بات کا جواب نہیں دے سکتے کے حیات کی ابتدا کیسے ہوئی؟ جب بگ بینگ سے کائنات وجود میں آئی تو اُس میں جاندار مادّہ تو کوئی تھا نہیں۔ تو پھر زندگی کی ابتدا کیونکر ہوئی؟ کچھ کہتے ہیں کہ کسی کیمیائی عمل سے ایسا ہوا۔ تو اگر کیمیا گری سے زندگی وجود میں آ سکتی تو سائنس اتنی ترقی کرنے کا بعد علم کیمیا سے کو ئی معمولی نوعیت کا جاندار یا کیڑا پیدا کر کے کیوں نہیں دکھا دیتی؟ بہرحال بات ڈارون کے مشہور زمانہ اور ساتھ ہی انتہائی متنازع نظریہ ارتقا کی ہو رہی ہے۔ جو صرف وہاں سے شروع ہوتا ہے جہاں زندگی پہلے سے ہی موجود تھی۔ تفصیلی بحث میں جائے بغیر ہم انسانوں کے ارتقا کی طرف آتے ہیں۔ یعنی بن مانس سے مانس بننے کا سفر۔ موجودہ دور کے انسان کو سائنس ہوموسیپینز (Homo Sapeins) کہتی ہے۔ اس سے پہلے کی نسل کو ہومو ایریکٹس (Homo Erectus) کہتے ہیں۔ علم الانسان یا بشریات کے ماہر یعنی اینتھروپولوجسٹ (Anthropologists) اپنی تما م تر کوشش کے بعد بھی ہوموسیپینزاور ہومو ایریکٹس کے درمیان کوئی جوڑ پیدا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ آج تک دنیا بھر میں زمین کی کھدائی سے کوئی ایک بھی ہڈی ایسی نہیں ملی جو ہوموسیپینزاور ہومو ایرکٹس کے درمیان کے دور کو ثابت کرتی ہو۔ اس بات کو ہم مسِنگ لنکِ (Missing Link) کا نام دیتے ہیں۔ اِرتقاءکے مطابق ایک نوع کو دوسری نوع میں تبدیل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ کوئی ایسا لمحہ آجائے جس میں اُن کی باہمی نسل اگے نہ بڑھ سکے۔ اگر بندر سے انسان کو الگ ہونا تھا توتاریخ میں کوئی ایسا وقت ضرور آیا ہوگا جب انسان نے اپنے جد امجد کو الوداع کہا ہوگا۔ وہ وقت کب آیا؟ کتنی خاموشی سے آیا؟ کسی کو آج تک خبر بھی نہ ہوئی؟ گمان ہے کہ بن مانس سے انسان کے الگ ہونے کا وقت آج سے 50 یا 70 لاکھ سال پہلے آیاہوگا۔ اس دور سے لے کر 15 لاکھ سال پہلے تک کئی قسم کے ادوار انسانی ارتقا کی کہانی سناتے ہیں اور پھر ہومو ایریکٹس (Homo Erectus) کا دور آیا جو 2 سے 3 لاکھ سال پہلے بڑے پرُاسرار انداز میں غائب ہو گیا۔ اور پھراچانک ہی 1.5 لاکھ سال پہلے کہیں سے ہوموسیپینز(Homo Sapeins) کا وجود آ گیا۔ ہومو ایریکٹس کے بارے میں قیاس ہے کے وہ تقریباً انسان تھے ہومو ایریکٹس اور ہوموسیپینز کے درمیان صرف 50 ہزار سال کا وقفہ ہے لیکن دونوں ں کا خاص اَختلاف یہ ہے کے دونوں کے دماغ کے حجم میں بہت بڑا فرق ہے (تقریباً ڈیڑھ گنا)۔ اس کے علاوہ دونوں بلکے جتنے بھی اعلیٰ حیوان (Primates) موجود ہیں ان کے تولیدی عمل میں بھی بہت ہی خاص اور نما یاں فرق پایا جاتاہے جو صرف اور صر ف انسانو ں کا خاصہ ہے۔ پھر ہوموسیپینز یا انسان کے جسم کے بالوں کو کیا ہوا؟ کہاں گئے؟ کیسے جھڑگئے؟ صرف دو وجہ ہو سکتی ہیں جسم کے بال گر جانے کی۔ انسان کی ارتقاءکافی زمانے تک پانی میں ہوئی یا پھر وہ عرصہ دراز تک کسی بہت ہی گرم جگہ رہتا رہا۔ لمبے عرصے تک پانی میں رہنے کی تو وجہ کچھ کچھ سمجھ آتی ہے کیونکہ انسان کا بچہ پیدائشی طور پر پانی میں سانس روک لینے اور کسی حد تک تیرنے کی قدرتی صلاحیت رکھتا ہے۔ لیکن یہ شکم مادر میں پروان چڑھنے کانتیجہ بھی ہو سکتا ہے۔ مگر اس کے علاوہ: انسانی کھال کے نیچے چربی کی تہ کا ہونا۔ بال کا نہ ہونا۔ نرخرے اور زبان کی بناوٹ۔ نمکین پسینے کے غدود جلد کا نرم ہونا اس بات کی غمازی کرتے ہیں کے انسان کا پانی سے کوئی رشتہ کبھی ضرور رہا ہے۔ لیکن کب اور کہاں یہ دور گزرا اس کے بارے میں مکمل سکوت ہے۔ کیا اسی لیے ہومو ایریکٹس اور ہوموسیپینز کے درمیان کا جوڑ غائب ہے کیونکہ وہ کہیں پانی میں دبا ہوا ہے۔ (واللہ عالم) بہت سے جانور زمانہ قدیم سے اوزار استعمال کرتے چلے آ رہے ہیں طرح اپنے اپنے اوزار استعمال کر رہے ہیں اور

Explanation:

Please mark me as brainliest. Ok

Similar questions