Art, asked by parveenamushtaq688, 11 months ago

۔ اپنے چھوٹے بھائی کے نام ایک خط لکھئے۔ جس میں اس سے موجود و باء کے دوران سابی دوری بنائے رکھنے اور دیگر احتیاطی تدابی
پر عمل پیرا رہنے کی نصیحت کیجئے۔
(​

Answers

Answered by vanamhamsikachandana
15

دنیا بھر میں وبائی شکل اختیار کرنے والا کورونا وائرس کسی کو بھی ہوسکتا ہے لیکن ان لوگوں کو کورونا وائرس سے خطرہ زیادہ ہے جو کہ ضیعف ہیں یا جنھیں پہلے سےصحت کے مسائل ہیں۔

اس وائرس سے چین میں ہزاروں کی تعداد میں اموات ہوئی ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں زیاہ تعداد معمر لوگوں کی ہیں جو کے پہلے سے کسی بیماری میں مبتلا تھے۔

اگر آپ کو پہلے سے کوئی بیماری یا صحت کے مسائل کا سامنا ہے تو آپ کو یہ سوچ کر پریشانی ہو رہی ہوگی۔ یہاں ہم آپ کو کچھ ماہرینِ صحت کی تجاویز بتا رہے ہی

hope it helps you please mark me as brainliest

Answered by Anonymous
0

Answer:

ہ قلم: حضرت مولانا ڈاکٹر عبد الرزّاق اسکندر دامت برکاتہم

شیخ الحدیث ومہتمم جامعة العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاوٴن، کراچی

 

تعلیم وتدریس ایک معزز اور قابل احترام منصب ہے، جس کے لیے کچھ شرائط اور آداب ہیں، جن کا جاننا اور ان کی عملی مشق کرنا ایساہی ضروری ہے، جیسے کسی فن کو سیکھنے کے لیے اس کی عملی مشق ضروری ہوتی ہے۔ فنِ تدریس کے لیے ذوق، فطری صلاحیت اوراس منصب کے تقاضوں کی ادائیگی کے لیے توجہ، محنت اور مشقت کی ضرورت ہے؛ تاکہ اسے سیکھنے والا ایک معلمِ کامل بن کر نکلے اور اس میں ایک کامیاب استاذ کی صفات اور خصائص موجود ہوں۔ جس سے اس کے تجربہ میں مزید اضافہ ہوتا رہے۔نیز جب وہ تدریس کے میدان میں قدم رکھے تو طلباء اس سے مستفید ہوں۔ اور وہ خود بھی علمی اور روحانی لذت محسوس کرسکے۔ تعلیم وتدریس ایک مقدس منصب ہے جو سیدالانبیاء حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی اعلیٰ صفات میں سے ایک صفت اور فرائض نبوت میں سے ایک فریضہ ہے۔ ارشادِ باری ہے:

”لَقَد مَنَّ اللّٰہُ عَلَی المُوْمِنِیْنَ اِذْبَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلاً مِّنْ اَنفُسِھِم یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ آیَاتِہ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتَابَ وَالحِکْمَةَ وَاِن کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلَالٍ مّْبِیْنٍ (آل عمران:۱۶۴)

”اللہ نے احسان فرمایا ایمان والوں پر جو بھیجا ان میں رسول انھیں میں سے پڑھتا ہے ان پر آیتیں اس کی اور پاک کرتا ہے ان کو اور سکھاتا ہے ان کو کتاب اور کام کی باتیں اور وہ تو پہلے سے صریح گمراہی میں تھے۔“

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اِرشاد ہے:

”اِنَّ اللّٰہَ لَمْ یَبْعَثْنِی مُعَنِّتًا وَلَا مُتَعَنِّتاً، وَلٰکِنْ بَعَثَنِی مُعَلِّمًا مُیَسِّراً․“

(صحیح مسلم،کتاب الطلاق،باب بیان تخییرالمرأة لایکون طلاقاً)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے معلم بناکر بھیجا، آپ نے فرمایا:

انما بعثت معلما․ ”مجھے معلم بناکر بھیجا گیا ہے“۔

آپ پر سب سے پہلے جو وحی نازل ہوئی اس میں علم اور تعلیم ہی کا ذکر تھا۔

”اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ(۱)خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ(۲)اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ(۳)الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ(۴)عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ(۵)“․(علق)

”اے پیغمبر! آپ اپنے اس رب کا نام لے کر قرآن پڑھیے جس نے پیدا انسان کو خون کے لوتھڑے سے، آپ قرآن پڑھیے اور آپ کا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعہ تعلیم دی، اس نے انسان کو ان چیزوں کی تعلیم دی جن کو وہ نہ جانتا تھا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں وہ تمام صفاتِ عالیہ موجود تھیں جو ایک معلم کامل میں مطلوب ہیں، آپ کمالِ علم، خلقِ عظیم، اُسوہٴ حسنہ اور کمالِ شفقت اور رحمت جیسی صفات کے ساتھ موصوف تھے۔

اسی بناپرجو عالم دین، قرآنِ کریم یا کسی شرعی علم کی تدریس کا کام سرانجام دے رہا ہے، وہ اِس صفت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وَسلم کی نیابت کررہا ہے،لہٰذا اسے یہ جاننا چاہیے کہ وہ ایک سعادت مند انسان ہے اور اسے یہ سعادت مندی مبارک ہو۔ ان شرعی علوم میں سے ایک علم عربی لغت بھی ہے جو قرآنِ کریم کی زبان،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان اور شریعت اِسلامیہ کی زبان ہے۔ چوں کہ تعلیم وتربیت کے ذریعہ استاذ کے اثرات شاگردوں پر پڑتے ہیں؛ اس لیے اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اُمت کے لیے معلم اور مربی بناکر بھیجا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم وتربیت خود اللہ تعالیٰ نے فرمائی،جیساکہ قرآنِ کریم میں ارشادہے:

”وَعَلَّمَکَ مَالَمْ تَکُنْ تَعْلَم“ (النساء :۱۱۳)

مزید فرمایا:

”وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْم․“ (القلم:۴)

اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وَسلم ایک اعلیٰ اور کامل معلم تھے، ایسا باکمال معلم نہ آپ سے پہلے کسی نے دیکھااور نہ آپ کے بعد کسی نے دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وَسلم کی اعلیٰ صفات میں کمالِ علم،عظیم حکمت،اعلیٰ اخلاق، شاگردوں کے ساتھ شفقت ورحمت، ان کی تعلیم و تربیت کے لیے نہایت عمدہ اور مفیداسالیب کا استعمال اور ان کی خبرگیری جیسی صفات اپنے کمال کی انتہاء کو پہنچے ہوئے تھے؛ اس لیے جو معلم اور استاذ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نائب بننا چاہے اور فنِ تدریس میں کمال تک پہنچنے کا خواہش مند ہوتو اُسے چاہیے کہ پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات وکمالات جو اِس میدان سے متعلق ہیں، معلوم کرے اور پھر اِن صفات میں آپ کے نقشِ قدم پر چلے۔جیساکہ ارشادِباری ہے:

”لَقَدْکَانَ لَکُمْ فِی رَسُوْلِ اللّٰہِ أُسْوَةٌ حَسَنَة․“( الاحزاب :۲۱)

اب میں اختصار کے ساتھ چند ایسی صفات کا ذکر کروں گا جو ایک کامیاب استاذ اور مدرّس کے لیے ضروری ہیں اور ضمناً ان کی مثالوں کی طرف اشارہ کرتا جاوٴں گا؛ کیوں کہ میرے سامنے اِس وقت دورہٴ حدیث سے فارغ ہونے والے فضلاء ہیں اور یہ مثالیں اُن کے ذہنوں میں ابھی تروتازہ ہیں؛ اس لیے کہ وہ حال ہی میں احادیث پڑھ کر فارغ ہوئے ہیں۔ وہ صفات درج ذیل ہیں:

۱- علم میں کمال:

معلم کامل کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے فن میں پوری مہارت رکھتا ہو، آپ صلی اللہ علیہ وَسلم کے بارے میں اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:

”اور سکھائیں آپ کو وہ باتیں جو آپ نہ جانتے تھے اور اللہ کا فضل آپ پر بہت بڑا ہے۔“ (النساء)

کامیاب اُستاذ کی صفت یہ ہے کہ وہ امکانی حد تک علم میں کمال رکھتا ہو، خصوصاً اُس مضمون اور فن میں جس کے پڑھانے کی ذمہ داری اس پر ڈالی گئی ہے؛ کیوں کہ ا

Similar questions