India Languages, asked by syounus290, 7 months ago

بندوں کو اللہ ہی سے اس کیوں لگانا چاہیے؟​

Answers

Answered by arunavaray
4

Answer:

39

، ہم حکم خدواندی کے پابند ہیں علم خداوندی کے نہیں۔ حکم ہے نماز پڑھو ہم پر نماز پڑھنا فرض ہے ہم یہ فرض اپنے اختیار سے بجا لائیں گے یا خواہش نفس اور شیطان سے مغلوب ہو کر ترک نماز کریں گے۔ یہ ہے اللہ کا علم یعنی تقدیر رزق کمانے کا مسئلہ بھی غور کریں تو اس سے سمجھ میں آ جائے گا کہ رزق کے بارے حکم ہے :

كُلُواْ مِن طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَلَا تَطْغَوْا فِيهِ فَيَحِلَّ عَلَيْكُمْ غَضَبِي وَمَن يَحْلِلْ عَلَيْهِ غَضَبِي فَقَدْ هَوَىo

’’ (اور تم سے فرمایا:) ان پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ جن کی ہم نے تمہیں روزی دی ہے اور اس میں حد سے نہ بڑھو ورنہ تم پر میرا غضب واجب ہو جائے گا، اور جس پر میرا غضب واجب ہوگیا سو وہ واقعی ہلاک ہوگیا‘‘۔

طہ ، 20: 81

یہ حکم بالکل واضح ہے۔

وَلَا تَاْکُلُوْآ اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ.

’’اور تم ایک دوسرے کے مال آپس میں ناحق نہ کھایا کرو‘‘۔

البقرۃ ، 2: 188

یہ ہے حکم ممانعت، جو بالکل واضح ہے۔ اب اللہ کا کمال علم یہ ہے کہ اسے معلوم ہے ان واضح احکام کے باوجود، کون حلال کی پابندی کرے گا اور کون اپنے اختیار سے ان احکام کی خلاف ورزی کرے گا۔ بندے کو کرنے کے بعد معلوم ہوگا کہ میں نے کیا کیا غلطی کی، کب کی، کیوں کی؟ اور ان تمام امور کو رب تعالیٰ ازل سے جانتا تھا۔ اب فرمائیے ! انسان ان واضح احکام و ہدایات کے ہوتے ان کے خلاف کیوں کرے؟ اور علم الٰہی جس کا اسے کوئی پتہ نہیں، اسے ترک حکم یا حکم کی خلاف ورزی کا کیوں بہانہ بنائے؟

در اصل ہمارے دینی امور میں بے حسی ہمیں ایسے وساوس کا شکار کرتی ہے۔ یہ سوچ ایسی ہی ہے کہ ایک شخص نے دوسرے کے ہاتھوں قتل ہونا ہے یہ تقدیر الٰہی میں اٹل ہے اب اس قاتل کو سزا کیوں دی جاتی ہے؟ یہی حال چوری، بد کاری اور دیگر جرائم کا ہے تو اس کا جواب یہی ہے کہ تقدیر الٰہی یعنی علم الٰہی میں کیا ہے اور کیا نہیں اسے مالک تقدیر جانے، ہم تقدیر کے مامور نہیں احکام شرع کے محکوم ہیں۔ ہمیں وہی کرنا چاہیے جس کا حکم شریعت نے دیا ہے گمراہی کے اندھے کنوؤں میں نہیں جھانکنا چاہیے جہاں پہلے صحیح اندازہ نہیں ہوتا، گرنے کے بعد ہوتا ہے جب وقت ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔

تقدیر علم خداوندی کا نام ہے :

ہر کام اللہ کی رضا سے ہوتا ہے اگر رضا سے مراد مشیت ہو تو ٹھیک ہے اللہ کی مشیت یہ ہے کہ ہر انسان کو اختیار، ارادہ اور اچھے برے کا علم حاصل ہو، نیک و بد کھول کر اس کے سامنے رکھ دیا جائے، نیکی اور بدی کے نتیجہ سے آگاہ کر دیا جائے اور کسی ایک کے اختیار کرنے میں اسے اختیار دیا جائے اور وہ اپنی مرضی و اختیار سے نیکی یا بدی میں سے ایک کو اختیار کر لے اب بندہ کس کو اختیار کرتا ہے اس میں مختار ہے کیا اختیار کرے گا اس کو اللہ ازل سے جانتا ہے اس علم الہی کو تقدیر کہتے ہیں کہ جو دنیا میں ہو رہا ہے اس کے علم اور ٹائم ٹیبل کے مطابق ہو رہا ہے محض اتفاق سے کچھ بھی نہیں ہو رہا چونکہ بندہ نہیں جانتا اس لیے وہ اندھیرے میں تیر پھینکنے کا مکلف نہیں وہ قرآن و سنت کے ان احکامات پر عمل کرنے کا مکلف ہے جو واضح ہیں جن میں خفاء نہیں لہٰذا وہ احکام شرع چھوڑ کر علم الٰہی کی کھوج میں کیوں لگے؟

دنیا کمانے میں تقدیر کا سہارا کوئی نہیں لیتا، تگ و دو کرتا ہے۔ دین کے معاملہ میں بہانے بنائے جاتے ہیں لہٰذا تقدیر کی فکر نہ کریں، احکام شرع کی تعمیل کی فکر کریں کیا سود خور یہ کہہ کر بچ جائے گا کہ میری تقدیر میں سود خوری لکھی ہوئی تھی کہا جائے گا آپ کو تقدیر یعنی علم الٰہی جو غیب ہے وہ نظر آ گیا اور قرآن میں حرمت سود کا واضح حکم نظر نہ آیا۔

کیا قاتل یہ کہہ کر چھوٹ جائے گا کہ میرے ہاتھوں قتل ہونا تقدیر میں تھا۔ کہا جائے گا حرمت جان اور قتل کا حرام ہونا تو قرآن میں واضح طور پر موجود تھا جس کے آپ مکلف تھے کیا نوشتہ تقدیر بھی آپ کے سامنے ایسا ہی واضح تھا جس پر آپ نے عمل کیا؟ حکم شرع پر عمل کرنا تو قرآن میں موجود ہے، کیا تقدیر کے مطابق عمل کرنے کا بھی قرآن و سنت میں کہیں حکم ہے؟ پس احکام شرع پر عمل کریں جس کا حکم ہے تقدیر علم خدواندی کا نام ہے اسے سپرد خدا کریں۔

لہٰذا تقدیر کا مطلب اللہ کا علم ہے :

اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل و شعور، ارادہ اور اختیار دیا ہے اس کو سیدھا اور غلط راستہ واضح کر کے بتایا ہے دونوں راستوں پر چلنے کا انجام بھی بتایا ہے اور پھر اس کو اپنی مرضی سے کسی ایک راستے پر چلنے کا اختیار بھی دیا۔ اس سے بندہ مجبور کہاں سے ہوگیا مجبور نہیں اسے اختیار ہے۔ خدا کے حکم کے بغیر پتا بھی نہیں ہل سکتا کا مطلب یہ ہے کہ ہر ایک کا علم اللہ کے علم اور قدرت میں ہے اگر اللہ تعالیٰ کسی کو کسی کام سے زبردستی روکنا چاہے تو روک سکتا ہے اور بندہ ہو یا پتا حرکت نہیں کر سکتا اگر اللہ تعالیٰ نے اپنی مرضی سے بندے کو اختیار دے دیا ہے۔ چاہے نیکی کرے چاہے گناہ نہ زبردستی نیکی کروائی جائے گی نہ برائی سے جبراً روکا جائے گا یہ اختیار اگر انسان صحیح استعمال کرے تو جنتی اور غلط استعمال کرے جہنمی تقدیر کا مطلب اللہ کا علم ہے یعنی اللہ تعالیٰ پہلے سے جانتا ہے کہ بندہ اپنی مرضی سے کیا کرے گا اور بس اس سے بندہ مجبور نہیں ہو گیا۔ ہم اللہ کی تقدیر کے پابند نہیں اس کے حکم کے پابند ہیں حکم واضح ہے تقدیر کا غلط استعمال ظالم، جابر بادشاہوں نے پبلک کو دبانے کے لیے کیا ہے اور آج بھی کر رہے ہیں یعنی گناہ خود کرو بہانہ تقدیر کا بناؤ۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی

Share

Facebook

Twitter

Email

WhatsApp

پرنٹ کریں

متعلقہ سوالات؟

ایمان کی خوبی کیا ہے؟

عرفان سے کیا مراد ہے؟

کیا بیوی کی موجودگی میں اس کی سوتیلی بہن سے شادی ہو سکتی ہے؟

وہ کون لوگ ہیں جن کے ایمان کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عجیب ترین ایمان قرار دیا؟

کیا سرمایہ کاری کی رقم پر زکوۃ لاگو ہوتی ہے؟

ایمان بالکتب سے کیا مراد ہے؟

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیعت اللہ کی ؟

کس پراپرٹی پر زکوۃ لاگو ہ

Similar questions