قرآن مجید کی لکھی ہوئی آیات کہاں رکھی جاتی تھی?
Answers
Answer:
قرآن، قرآن مجید یا قرآن شریف (عربی: القرآن الكريم) دین اسلام کی مقدس و مرکزی کتاب ہے جس کے متعلق اسلام کے پیروکاروں کا اعتقاد ہے کہ وہ کلام الہی ہے[1][2] اور اسی بنا پر یہ انتہائی محترم و قابل عظمت کتاب ہے۔ اسے پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی کے ذریعے اتارا گیا۔ یہ وحی اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتے حضرت جبرائیل علیہ السلام لاتے تھے [3] جیسے جیسے قرآن مجید کی آیات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوتیں آپ صلی علیہ وآلہ وسلم اسے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو سنا اور ان آیات کے مطالب و معانی سمجھا دیتے۔ کچھ صحابہ کرام تو ان آیات کو وہیں یاد کر لیتے اور کچھ لکھ کر محفوظ کر لیتے۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن ہر قسم کی تحریف سے پاک سے محفوظ ہے[4][5][6]، قرآن میں آج تک کوئی کمی بیشی نہیں ہو سکی اور اسے دنیا کی واحد محفوظ کتاب ہونے کی حیثیت حاصل ہے، جس کا حقیقی مفہوم تبدیل نہیں ہو سکا اور تمام دنیا میں کروڑوں کی تعداد میں چھپنے کے باوجود اس کا متن ایک جیسا ہے اور اس کی تلاوت عبادت ہے۔[7] نیز صحف ابراہیم، زبور[8] اور تورات و انجیل[9][10] کے بعد آسمانی کتابوں میں یہ سب سے آخری کتاب ہے اور سابقہ آسمانی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اب اس کے بعد کوئی آسمانی کتاب نازل نہیں ہوگی۔ قرآن کی فصاحت و بلاغت کے پیش نظر اسے لغوی و مذہبی لحاظ سے تمام عربی کتابوں میں اعلیٰ ترین مقام دیا گیا ہے۔[11][12][13][14][15][16][17] نیز عربی زبان و ادب اور اس کے نحوی و صرفی قواعد کی وحدت و ارتقا میں بھی قرآن کا خاصا اہم کردار دکھائی دیتا ہے۔ چنانچہ قرآن کے وضع کردہ عربی زبان کے قواعد بلند پایہ عرب محققین اور علمائے لغت مثلاً سیبویہ، ابو الاسود الدؤلی اور خلیل بن احمد فراہیدی وغیرہ کے یہاں بنیادی ماخذ سمجھے گئے ہیں۔
قرآن، قرآن مجید یا قرآن شریف (عربی: القرآن الكريم) دین اسلام کی مقدس و مرکزی کتاب ہے جس کے متعلق اسلام کے پیروکاروں کا اعتقاد ہے کہ وہ کلام الہی ہے[1][2] اور اسی بنا پر یہ انتہائی محترم و قابل عظمت کتاب ہے۔ اسے پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی کے ذریعے اتارا گیا۔ یہ وحی اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتے حضرت جبرائیل علیہ السلام لاتے تھے [3] جیسے جیسے قرآن مجید کی آیات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوتیں آپ صلی علیہ وآلہ وسلم اسے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو سنا اور ان آیات کے مطالب و معانی سمجھا دیتے۔ کچھ صحابہ کرام تو ان آیات کو وہیں یاد کر لیتے اور کچھ لکھ کر محفوظ کر لیتے۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن ہر قسم کی تحریف سے پاک سے محفوظ ہے[4][5][6]، قرآن میں آج تک کوئی کمی بیشی نہیں ہو سکی اور اسے دنیا کی واحد محفوظ کتاب ہونے کی حیثیت حاصل ہے، جس کا حقیقی مفہوم تبدیل نہیں ہو سکا اور تمام دنیا میں کروڑوں کی تعداد میں چھپنے کے باوجود اس کا متن ایک جیسا ہے اور اس کی تلاوت عبادت ہے۔[7] نیز صحف ابراہیم، زبور[8] اور تورات و انجیل[9][10] کے بعد آسمانی کتابوں میں یہ سب سے آخری کتاب ہے اور سابقہ آسمانی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اب اس کے بعد کوئی آسمانی کتاب نازل نہیں ہوگی۔ قرآن کی فصاحت و بلاغت کے پیش نظر اسے لغوی و مذہبی لحاظ سے تمام عربی کتابوں میں اعلیٰ ترین مقام دیا گیا ہے۔[11][12][13][14][15][16][17] نیز عربی زبان و ادب اور اس کے نحوی و صرفی قواعد کی وحدت و ارتقا میں بھی قرآن کا خاصا اہم کردار دکھائی دیتا ہے۔ چنانچہ قرآن کے وضع کردہ عربی زبان کے قواعد بلند پایہ عرب محققین اور علمائے لغت مثلاً سیبویہ، ابو الاسود الدؤلی اور خلیل بن احمد فراہیدی وغیرہ کے یہاں بنیادی ماخذ سمجھے گئے ہیں۔گو کہ نزول قرآن سے قبل عربی زبان کا ادب خاصا وسیع اور اس کا دامن الفاظ و تراکیب اور تشبیہات و استعارات سے لبریز تھا لیکن وہ متحد نہیں تھی۔ قرآن کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس نے عربی زبان کو ایک بنیاد پر متحد کیا[18] اور حسن کلام، روانی، فصاحت و بلاغت اور اعجاز و بیان کے ایسے شہ پارے پیش کیے جنہیں دیکھ کر فصحائے عرب ششدر تھے۔[19] نیز قرآن نے عربی زبان کو مٹنے سے بھی بچایا، جیسا کہ بہت سی سامی زبانیں وقت کے گزرنے کے ساتھ ناپید یا زوال پزیر ہو گئیں جبکہ عربی زبان گزرتے وقتوں کے ساتھ مزید مالا مال ہوتی رہی اور قدیم و جدید تمام تقاضوں سے خود کو ہم آہنگ رکھا۔
plz thanks to my all answer.
Answer:
بہ قلم: مولانا اشتیاق احمد ، مدرس دارالعلوم دیوبند
”قرآن مجید“ اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ہے، جو آخری نبی جناب محمد رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوئی ہے، قیامت تک کوئی اور کتاب نازل نہ ہوگی، یہ زندگی کا وہی دستورِ کہن ہے جو ہمارے آبائے اولین کو ملا تھا، اس میں اصولاً اسی کا اعادہ اور عہد کی تجدید ہے، یہ خدائی عطیہ، ہمارا مشترکہ روحانی ترکہ ہے، جو منتقل ہوتا ہوا ہم تک پہنچا ہے، اسے دوسری آسمانی کتابوں کا آخری اور دائمی ایڈیشن بھی کہا جا سکتا ہے۔ ابتدائے نزول سے آج تک بلا کسی ادنیٰ تغیر و تبدل کے باقی ہے، اس میں سرِ مو کوئی فرق نہیں آیا، ایک لمحہ کے لیے نہ تو قرآن مسلمانوں سے جدا ہوا اور نہ مسلمان قرآن سے جدا ہوئے، اس میں باطل کے در آنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے: ”لاَ یَأتِیْہِ الْبَاطِلُ مِن بَیْنَ یَدَیْہِ وَلَا مِنْ خَلْفِہ “(حم سجدہ)
(ترجمہ:) قرآن مجید میں باطل نہ تو سامنے سے آ سکتا ہے اور نہ ہی اس کے پیچھے سے۔
آسمانی کتابوں میں قرآن مجید ہی کو یہ خصوصیت بھی حاصل ہے کہ یہ قیامت تک اپنی اصل حالت پر رہے گا، خود اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے، ایک جگہ بڑے ذور دار انداز میں ارشاد فرمایا: اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہُ لَحَافِظُوْنَ (حجر ۹)
(ترجمہ:) ہم نے ہی ذکر (قرآن مجید) کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔
صرف الفاظ نہیں؛ بلکہ معانی و مطالب کی تشریح و توضیح کی ذمہ داری بھی خود اللہ تعالیٰ نے لی ہے، ایک جگہ ارشاد ہے: ”ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہ“ (ترجمہ) پھر ہم پر ہی اس کا بیان (بھی) ہے۔
قرآن مجید کا نزول ضرورت و حاجت کے مطابق تھوڑا تھوڑا ہوتا رہا، کبھی ایک آیت کبھی چند آیتیں نازل ہوتی رہیں، نزول کی ترتیب موجودہ ترتیب سے بالکل الگ تھی، یہ سلسلہ پورے عہد نبوی کو محیط رہا؛ بلکہ رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ مبارکہ کے آخری لمحات تک جاری رہا؛ اس لیے آپ ﷺ کے سامنے آج کی طرح کتابی شکل میں منصہ شہود پر آنا مشکل؛ بلکہ ناممکن تھا، ہاں! یہ بات ضرور ہے کہ ہر آیت کے نازل ہوتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم لکھوا لیتے تھے اور زمانہ کے لحاظ سے نہایت ہی پائدار چیز پر لکھواتے تھے؛ چناں چہ پورا قرآن مجید بلا کسی کم و کاست کے لکھا ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہٴ مبارکہ میں موجود تھا، اس میں نہ تو کوئی آیت لکھنے سے رہ گئی تھی اور نہ ہی کسی کی ترتیب میں کوئی کمی تھی؛ البتہ سب سورتیں الگ الگ تھیں، اور متعدد چیزوں پر لکھی ہوئی تھیں، کتابی شکل میں جلد سازی اور شیرازہ بندی نہیں ہوئی تھی:
قد کان القرآنُ کُلُّہ مکتوباً فی عَہْدِہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لکن غیرَ مجموعٍ في مَوضِعٍ واحدٍ۔ (الکتابي ج ۲ص ۳۸۴ بحوالہ تدوینِ قرآن ص ۴۳)
(ترجمہ:) پورا قرآن مجید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں لکھا ہوا تھا؛ لیکن ایک جگہ جمع نہیں تھا۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کتابی شکل میں جمع کرایا اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اس کی محقق نقلیں تیار کرکے ہر طرف پھیلایا؛ بلکہ پوری امت کو اس پر جمع کیا۔ آج تک قرآن مجید اسی کے مطابق موجود ہے۔
حفاظتِ قرآن مجید کے طریقے
ابتدائے نزول سے قرآن مجید کی حفاظت جس طر ”لکھ کر“ ہوئی ہے، اس سے کہیں زیادہ ”حفظ“ کے ذریعہ ہوئی ہے، سینہ بہ سینہ حفظ کی خصوصیت صرف اسی آخری کتابِ الٰہی کو نصیب ہوئی، تو رات، انجیل اور دوسری آسمانی کتابوں اور صحیفوں کی حفاظت صرف سفینہ میں ہوئی، اس لیے وہ تغیر و تبدل اور دوسرے حوادث کا شکار ہو گئیں، قرآن مجید کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب فرماتے ہوئے، ارشاد فرمایا:
و مُنَزِّلٌ علیکَ کتاباً لا یغسِلْہ الماء۔ (صحیح مسلم)
(ترجمہ:) میں آپ پر ایسی کتاب نازل کرنے والا ہوں جس کو پانی نہیں دھو سکے گا۔
غرض یہ کہ قرآن کی حفاظت شروع شروع میں سب سے زیادہ حافظہ کے ذریعہ ہوئی اور حفاظت کا سب سے اہم ذریعہ یہی ہے، اسی وجہ سے آج تک یہ کتاب مقدس اپنی اصل حالت پر باقی ہے، صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اپنے خداداد بے نظیرحافظے کو جاہلیت کے اشعار، انسابِ عرب حتی کے اونٹوں اور گھوڑوں کی نسلوں کے حفظ سے ہٹا کر، آیاتِ الٰہی کے حفظ پر لگادیا، عرب کے ضرب المثل حافظے نے چند ہی دنوں میں ہزاروں حفّاظِ آیاتِ الٰہی کو معرضِ شہود میں لا کھڑا کر دیا، حفّاظ کی کثرت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ: صرف ”جنگ ِیمامہ“ میں شہید ہونے والے حافظوں کی تعداد سات سو تھی، بخاری شریف کے حاشیہ میں ہے: وکان عِدَّةٌ مِن القُرّاء سَبْعَ مائة (۲/۷۴۵)۔
سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت جبریل علیہ السلام جب قرآن مجید پڑھ کر سناتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم جلدی جلدی دہرانے لگے تھے؛ تاکہ خوب پختہ ہو جائے، اس پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: لا تُحَرِّک بہ لِسانَک لِتَعْجَلَ بہ، انّ علینا جَمْعَہ و قُرآنَہ۔ (قیامہ۱۷) (ترجمہ:) آپ قرآن مجید کو جلدی جلدی یاد کرلینے کی غرض سے، اپنی زبان کو حرکت نہ دیجیے، (اس لیے کہ) قرآن مجید کو جمع کرنے اور اس کو پڑھوانے کی ذمہ داری ہمارے اوپر ہے۔
کتابت کا اہتمام
Explanation:
MARK ME AS A BRAINLEIST
AND FOLLOW ME AND THANKS MY ANSWERS PLEASE