English, asked by umairaliumairali956, 6 months ago

: دار البوار سے کیا مراد ہے؟​

Answers

Answered by mohamedshaheedh2712
1

Answer:

hey plz follow me and mark as brainalist plz

Explanation:

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلَمۡ تَرَ اِلَى الَّذِيۡنَ بَدَّلُوۡا نِعۡمَتَ اللّٰهِ كُفۡرًا وَّاَحَلُّوۡا قَوۡمَهُمۡ دَارَ الۡبَوَارِۙ ۞

ترجمہ:

کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا، جنہوں اللہ کی نعمت کو ناسپاسی سے بدل دیا اور اور اپنی قوم کو تباہی کے گھر میں پہنچا دیا۔

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہوں نے اللہ کی نعمت کو ناسپاسی سے بدل دیا اور اپنی قوم کو تباہی کے گھر میں پہنچادیا۔ وہ تباہی کا گھر جہنم ہے جس میں وہ داخل ہو گے اور وہ برا ٹھکانا ہے۔ اور انہوں نے اللہ کے لیے شریک قرار دیئے تاکہ لوگوں کو اس کے راستے سے گمراہ کریں آپ کہئے کہ تم عارضی نفع اٹھالو، کیونکہ انجام کار تم دوزخ کی طرف لوٹنا ہے۔ (ابراھیم : 30، 28)

اہل مکہ پر اللہ کی نعمتیں اور ناشکری :

یہ آیت اہل مکہ کے متعلق ناازل ہوئی ہے، اللہ تعالیٰ نے ان کو متعدد نعمتیں عطا فرمائیں ان کو رزق کی وسعت عطا فرمائی اپنے حرم میں ان کو سکونت مہیا کی ان میں سید نا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبعوث فرمایا ان کی ہدایت کے لیے قرآن مجید نازل فرمایا، ان کے کعبہ کو ساری دنیا کے مسلمانوں کی نمازوں کے لیے قبلہ بنادیا لیکن انہوں نے ان نعمتوں کا شکر ادا کرنے کے بجائے ناشکر کی اور ایمان لانے کی بجائے کفر کیا اور اپنی قوم کو دارالبوار میں پہنچادیا۔

دارالبوار سے مراد تباہی اور ہلاکت کا گھر ہے جس چیز میں زیادہ کھوٹ ہو اس کو بوار کہتے ہیں اور کسی چیز میں زیادہ کھوٹ کا پایا جانا اس کے فساد اور ہلاکت کا موجب ہوتا ہے اس لیے بوار کا لفظ ہلاکت کے معنی میں مستعمل ہوتا ہے اور ہلاک ہونے والے کو بائر کہتے ہیں اس کی جمع بو رہے جو شخص حیران اور پریشان ہو کسی کی بات سنے نہ کسی کی طرف متوجہ ہو اس کو حائرکہتے ہیں قرآن مجید میں ہے :

وَلَكِنْ مَتَّعْتَهُمْ وَآبَاءَهُمْ حَتَّى نَسُوا الذِّكْرَ وَكَانُوا قَوْمًا بُورًا (الفرقان :18) لیکن تو نے ان کو اور ان کے آباء اجداد کو ( عارضی) فائدہ پہنچایا حتی کہ انہوں نے تیری یاد کو فراموش کردیا اور وہ ہلاک ہونے والے لوگ ہوگئے۔

امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی 256 ھ اس آیت کی تفسیر میں اس حدیث کی روایت کیا ہے :

حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : الذین ید لو نعمتہ اللہ کفر، ! اس مراد کفار قر یش ہیں عمر و نے کہا وہ قریش ہیں اور اللہ کی نعمت سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واحد واقومھم دارالبوار، اس سے مراد دوزخ کی آگ ہے جو جنگ بدر کے نتیجہ میں ان کو ملی۔

کفار مکہ کا شرک :

اس کے بعد فرمایا : اور انہوں نے اللہ کے لیے شریک قرار دیئے یعنی انہوں نے اپنے اعتقاد اور اپنے قول میں اللہ کے شریک بنا لیے کیونکہ واقع میں اللہ کا کوئی شریک نہیں ہے بلکہ اس شریک محال ہے اور شریک قرار دینے سے مراد یہ ہے کہ گزشتہ زمانہ میں جو نیک لوگ گزرے تھے انہوں نے ان کی صورتوں کے بت تراش لیے یہ ان پر چڑھاوے چڑھاتے تھے اور اپنی مہمات اور مشکلات میں ان کو مدد کے لیے پکارتے تھے ان کی منتیں مانتے تھے اور ان کی تعظیم بجا لاتے تھے یہی ان کی عبادت تھی ایک قول یہ ہے کہ وہ اللہ کی دی ہوئی نعمتوں میں سے کچھ اللہ کے لیے رکھتے اور کچھ بتوں کے لیے اور کہتے کہ یہ اللہ کے لیے ہے اور یہ ہمارے شرکاء کے لیے ہے دوسراقول یہ ہے کہ انہوں نے اللہ کی عبادت میں بتوں کی بھی شریک کرلیا تھا تیسرا قول یہ ہے کہ جب یہ حج کے لیے تلبیہ کرتے تو کہتے تھے :

لبیک لا شریک الا شریک ھو لک تملکہ وما ملک۔ لبیک تیرا کوئی شریک نہیں ہے مگر وہ جس کا تو مالک ہے اور اس کی ملکیت کا بھی تو مالک ہے۔

اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کی ناشکری کی اور وجہ بیان کی کہ یہ خود بھی شرک کرتے ہیں اور لوگوں کو بھی گمراہ کرتے ہیں اور اللہ کا نا شکری کرکے اللہ کا کوئی نقصان نہیں کرتے خود ہی جہنم خرید تے ہیں۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 14 ابراهيم آیت نمبر 28

Answered by Aryanidhanvjay
0

Answer:

دارالعلوم "تباہی کا ٹھکانہ" قرآن مجید میں جہنم کے لئے استعمال ہونے والی اصطلاح ہے (14: 28)۔

Similar questions