Art, asked by akshu2303i, 4 months ago

میر باقرعلی کی داستان سننے کے لیے کیا کیا اہتمام کیا جا تا تھا ؟

Answers

Answered by MohammadJawadAbbasi
0

Answer:

اردو ادب

میر باقر علی داستان گو

صاحب لڑیسید شہزاد ناصر تاریخ ابتداءاگست 17، 2019

سید شہزاد ناصر

سید شہزاد ناصر

محفلین

اگست 17، 2019

#1

جب تک میر باقر علی (۱۸۵۰-۱۹۲۵) زندہ رہے اردو کے نام لیوا انہیں خاطر میں نہ لائے۔ بڑھاپے میں چھالیا بیچتے اور پان کھانے کے آداب سکھاتے پھرے۔ چھوٹی چھوٹی کتابیں خود ہی چھاپیں۔ جتنی میری نظر سے گزری ہیں ان میں داستان کوئی نہیں۔ جو دست یاب نہیں، اور جنہیں زیر تبصرہ کتاب کے تیز و طرار مدوّن بھی نہ ڈھونڈ پائے، ان کے بارے میں کچھ کہنے سے قاصر ہوں۔ شاید وہ بھی داستانوں کے زمرے میں نہ آتی ہوں۔ میر باقر علی کو داستان گو ضرور لکھا جاتا ہے لیکن سچ پوچھیے تو ہمیں مطلق علم نہیں کہ ان کی کہی ہوئی داستانیں کس پائے کی تھیں۔

ہمیں ایک ہندو ناشر، منشی نولکشور، کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ اس نے پچاس ساٹھ ہزار صفحے اردو داستانوں کے شائع کر دیے۔ اگر وہ یہ قدم نہ اٹھاتا تو ’’طلسم ہوش ربا‘‘ وغیرہ کا ہمارے لیے نام ہی باقی رہ جاتا۔ فی زمانہ کون دعویٰ کر سکتا ہے کہ اس نے کسی پرانے پیشہ ور داستان گو کو سنا ہے۔ میر باقر علی کی چند منٹ کی ریکارڈنگ ضرور موجود ہے اور میں نے سنی ہے لیکن اس سے ان کے کمالات کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔ اردو کے بیشتر ناشروں، ادیبوں، ناقدوں اور محققوں نے اردو داستانوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا ہے اس کا کیا گلہ کیا جائے (شمس الرحمن فاروقی اور سہیل احمد خاں کی حیثیت استشنائی ہے)۔ میرا محتاط اندازہ ہے کہ انیسویں صدی اور بیسویں صدی کے دوران میں غیر مطبوعہ اردو داستانوں کے ایک لاکھ کے قریب صفحات ضائع ہو چکے ہیں۔ ان داستانوں کو کسی نے پڑھنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی۔ آرزو لکھنوی تک کی داستان بھی ناقدری کے ہاتھوں تباہ ہوئی۔ آپ کو کہیں اس کی ایک سطر بھی پڑھنے کو نہ ملے گی۔ مرزا غالب بھی داستان لکھنا چاہتے تھے۔ کوئی مرّبی ایسا نہ ملا جو انہیں داستان لکھنے کے لیے فرصت بہم پہنچا سکتا۔

خیر، اب میر باقر علی کی تلچھٹ کو یکجا کرنے کی کوشش تو ہوئی۔ اسے غنیمت جانیے۔ جس طرف دیکھا نہ تھا اب تک اُدھر دیکھا تو ہے۔ ان باقیات سے، جن میں تکرار بھی ہے اور جو بائیں ہاتھ کا کھیل بھی معلوم ہوتی ہیں، میر صاحب کی ہنر مندی کا تھوڑا سا اندازہ ہوتا ہے۔ خاص بات جو پتا چلتی ہے یہ ہے کہ میر صاحب نے اپنے گرد وپیش کو نہ صرف بڑے غور سے دیکھا تھا بلکہ اسے بیان کرنے پر بھی قادر تھے۔ ایسی گاڑھی واقعیت نگاری کا مظاہرہ نہ ان سے پہلے کسی نے کیا اور نہ ان کے بعد کوئی کرسکا، گو واقعیت نگاری کے بڑے بڑے دعویٰ دار پیدا ہوے۔ مثال کے طور پر ’’پاجی پڑوس‘‘’’سرائے کا نقشہ‘‘ اور ’’فقیر کا تکیہ‘‘ کو پڑھنا کافی ہو گا۔ اگر وہ چاہتے تو بہت کمال کا ناول لکھ سکتے تھے۔ کم از کم ان سے آپ بیتی تو لکھوائی جا سکتی تھی، دہلی میں سب کے علم میں تھا کہ وہ فن داستان گوئی کے آخری نمائندے ہیں۔بہت سی فضول اردو کتابیں چھپتی رہیں۔ شاید اردو کے بہی خواہوں کا خیال تھا کہ انہوں نے میر صاحب کی زبانی قصے کہانیاں سن کر بڑا احسان کیا ہے۔ کسی دقیانوسی صنفِ ادب کو ، جس کے اجزائے ترکیبی رزم، بزم، ساحری یا طلسم اور عیاری تھے، محفوظ کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔

اس کتاب میں چالیس پچاس صفحوں میں محمود فاروقی اور دانش حسین کا ذکر بھی ہے جنہوں نے آج کل داستان سرائی کا احیا کیا۔ ان کے کارنامے کو سراہا بھی گیا۔ وہ بھارت، پاکستان، امریکہ، دبئی اور سری لنکا میں دو ڈھائی سو سے زیادہ محفلوں میں اپنے فن کا مظاہرہ کر چکے ہیں، بہر کیف، یہ نکتہ سامنے رہنا چاہیے کہ انہوں نے، باقی ہم سب کی طرح، کسی داستان گو کو سنا نہیں۔ کسی روایتی فن کا تار ایک دفعہ ٹوٹ جائے اور مدتوں ٹوٹا رہے تو اسے کسی طور جوڑا نہیں جا سکتا۔ یہ دونوں نئے انداز سے داستان سناتے ہیں اور اردو ادب کی ایسی صنف کی طرف سامعین کو متوجہ کرنے میں کام یاب رہے ہیں جس سے بہت کم اعتنا کیا گیا ہے۔ تاہم ان کا یہ کہنا مبالغہ آمیز ہے کہ داستانوں کی زبان اتنی مشکل ہے کہ اچھے سے اچھے اردو والے بھی نہیں سمجھ سکتے۔ بالعموم مطبوعہ داستانوں کی زبان طرح دار اور پُرلطف ہے، مشکل نہیں۔ ’’طلسم ہوش ربا‘‘ کا وہ انتخاب ہی دیکھ لیجیے جو محمد حسن عسکری نے کیا تھا۔ ہاں، اگر لوگ اپنے پرانے ادب کو پڑھنا ہی چھوڑ دیں تو ہر چیز مشکل لگے گی۔ داستانوں کو جانے دیجیے، ان لوگوں کو تو نذیر احمد اور سرشار کو پڑھنے میں بھی دقت ہوگی۔

عقیل عباس جعفری بڑے کام کے آدمی ہیں۔ میر باقر علی کی جو تصنیفات انہیں دستیاب ہوئیں وہ اس کتاب میں اکٹھی کر دیں۔ بعض چھوٹے موٹے مضامین شاید اب بھی رہ گئے ہوں۔ کتاب میں یہ تصانیف شامل ہیں: ۱۔خلیل خاں فاختہ۔

۲۔ پاجی پڑوس۔

۳۔گاڑھے خان نے ململ جان کو طلاق دی۔

۴۔ گاڑھے خان کا دکھڑا۔

۵۔ بہادر شاہ بادشاہ کا مولا بخش ہاتھی۔

۶۔ باتوں کی باتیں۔

۷۔ سرائے کا نقشہ

۸۔فقیر کا تکیہ

’’کاناباتی‘‘ چوں کہ مجلسِ ترقیُ ادب، لاہور، سے شائع ہو چکی ہے اس لیے اس کے صرف بعض اجزا شامل کیے ہیں۔ یہی مناسب بھی تھا۔ میر صاحب کا کہ

Similar questions