انشا به او مضمون میں کیا فرق ہے ؟
Answers
Explanation:
*** مضمون اور انشائیہ میں فرق ***
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انشائیہ مضمون کی ہی ایک قسم ہے۔ اسی لیے ان دونوں میں زیادہ قربت پائی جاتی ہے۔ بظاہر ان دونوں میں مشابہت معلوم ہوتی ہے باوجود اس کے غور کریں تو کئی بار ایسے امتیازات ظاہر ہوتے ہیں جو مضمون اور انشائیہ میں فرق پیدا کرتے ہیں۔
مضمون کی ایک ہیئت ہوتی ہے۔ مضمون میں موضوع سے متعلق ممکنہ معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔ جب کہ انشائیہ میں موضوع کی کوئی قید نہیں ہوتی بلکہ انشائیہ نگار کو یہ آزادی حاصل رہتی ہے کہ موضوع سے جڑی دوسری باتوں کو بھی وہ درمیان میں قلمبند کرتا چلا جاتا ہے اور اس میں اپنے ذاتی تاثرات بھی شامل کر دیتا ہے۔
جس طرح مضمون میں ابتدائی حصہ، درمیانی حصہ اور اختتامیہ ہوتا ہے۔ اس طرح انشائیہ کو ان مختلف حصوں میں درجہ بند نہیں کیا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ انشائیہ کی کوئی خاص ہیئت نہیں ہوتی اور اس کی فضا غیر رسمی ہوتی ہے۔
مضمون میں مواد کی پیش کشی میں ایک منطقی ربط ہوتا ہے۔ برخلاف اس کے انشائیہ میں موضوع سے ربط و تعلق تو ہوتا ہے لیکن اس میں کوئی منطقی ربط نہیں ہوتا بلکہ کئی ضمنی باتوں کے سہارے انشائیہ نگار اپنا ما فی الضمیر ادا کرتا چلا جاتا ہے۔
مضمون میں اپنا سارا زور بات کو عالمانہ انداز سے کہنے پر ہوتا ہے اور اس کا بنیادی مقصد معلومات فراہم کرنا ہوتا ہے۔ جبکہ انشائیہ میں معلومات سے زیادہ تاثرات کی اہمیت ہوتی ہے۔ یہ تاثرات انشائیہ نگار کی ذہنی ترنگ کے تابع ہوتے ہیں۔
اس لیے کہ انشائیہ نگار واقعات سے زیادہ واقعات کے رد عمل پر توجہ دیتا ہے اور اشاروں اشاروں میں اپنا مدعا بیان کر دیتا ہے۔ جبکہ موضوع مضمون سے متعلق باتیں سنجیدگی سے زیر بحث آتی ہیں اور ان کی وضاحت دلائل کے ساتھ ہوتی ہے اور انداز بیان بالکل سیدھا سادھا ہوتا ہے۔ جبکہ انشائیہ میں سارا زور انداز بیان پر ہوتا ہے۔
اس کا اسلوب شگفتہ اور شاعرانہ ہوتا ہے۔ اسی خاص اسلوب کی بنا پر انشائیہ کے موضوعات اور طرز اظہار میں نمایاں فرق ہے اور ان کے مقصد بھی جدا جدا ہیں۔
مضمون جدید نثر کی ایک مقبول صنف ہے۔ خیالات کے اظہار اور ان کی ترسیل کے لیے یہ ایک مفید صنف ادب ہے۔ جس میں زندگی سے جڑے تمام موضوعات پر اظہار خیال جا سکتا ہے۔ خواہ وہ سائنسی معلومات ہوں کہ مذہبی یا پھر ادبی ہوں کہ معلوماتی ہر قسم کی معلومات اس صنف ادب کا حصہ بن سکتی ہیں۔
موجودہ زمانے میں اس صنف کو غیر معمولی فروغ حاصل ہوا ہے۔ چھاپے خانے کی ایجاد نے رسالوں اور اخبارات کی اشاعت کی راہ ہموار کی۔ جس کی بنا ء پر اخبار اور رسالوں کی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے مضمون نویسی عام ہوئی اور اس مقصد کے لیے ہر موضوع پر مضامین لکھے جانے لگے۔ عصر حاضر میں انٹرنیٹ پر ہر موضوع پر سیکڑوں مضامین پڑھنے کو مل جاتے ہیں۔ اس سے یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ آج کی جدید ترین معلومات کا ذریعہ یہ مضامین ہی ہیں۔
مضمون ایک مختصر صنف ادب ہونے کے باوجود اس میں موضوع کا احاطہ بڑی گہرائی اور گیرائی کے ساتھ کیا جاتا ہے اور موضوع کے متعلق اہم باتیں ایک تسلسل اور تنظیم کے ساتھ پیش کی جاتی ہیں۔ مضمون کی زبان سادہ اور سلیس ہوتی ہے اور انداز بیان میں علمی سنجیدگی ہوتی ہے۔ جیسے علمی مضامین، تحقیقی و تنقیدی مضامین، سائنسی و مذہبی مضامین وغیرہ۔
مضمون ہی کی ایک قسم انشائیہ ہے۔ انشائیہ میں کسی موضوع پر شخصی تاثرات مشاہدات اور تجربات کو بیان کیا جاتا ہے۔ اسی لیے اسے ’’ذاتی بیشتر‘‘ کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ انشائیے میں عبارت آرائی کو بڑی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ انشائیہ نگار اپنے موضوع کو بیان کرتے ہوئے خاص اسلوب اپناتا ہے جس سے کہ پڑھنے والے کو پڑھنے والے کو تحریر میں لطف ملتا ہے وہ بات سے بات پیدا کر کے خشک موضوع کو بھی دلچسپ بنا دیتا ہے۔
مضمون میں ابتدا سے لے کر اختتام تک موضوع کے متعلق ایک ہی خیال کو تسلسل کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ لیکن انشائیہ کے عموماً پیراگراف میں ایک نیا خیال ملتا ہے۔ یعنی انشائیہ نگار موضوع سے تعلق رکھنے والی دوسری ضمنی باتوں پر اپنے ذاتی تاثرات اور خیالات پیش کرتا ہے۔ باوجود اس منتشر خیالی کے انشائیہ میں ایک ربط ضرور معلوم ہوتا ہے انشائیہ مضمون کی ہی ایک قسم ہے لیکن دونوں میں موضوع، زبان، ترتیب، ربط اور انداز بیان میں فرق ہے۔
بنیادی طور پر انشائیہ نگار کا مقصد سوچ بچار کے لیے راستے ہموار کرنا ہوتا ہے۔ تمام ریزہ خیالی کے باوجود انشائیہ میں ابتداء سے لیکر اختتام تک ربط قائم رہتا ہے۔ انشائیہ نگار کے ذہن میں موضوع سے متعلق یا موضوع سے جڑے دوسرے ضمنی خیالات جس طرح سے آتے ہیں وہ انہیں ضبط تحریر میں لے آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انشائیے کے مختلف پیراگراف میں عام طور پر ایک نیا خیال ملتا ہے۔ اور تقریباً ہر پیراگراف اپنی جگہ مکمل ہوتا ہے۔ اس لیے انشائیے کو ’’غزل کا فن‘‘ بھی کہا گیا ہے۔ جس طرح غزل کا ہر شعر اپنے آپ میں ایک مکمل خیال کی ترجمانی کرتا ہے اسی طرح انشائیے میں بھی یہی خصوصیت نظر آتی ہے۔
’’انشائیہ‘‘ ایک ہلکی پھلکی صنف ادب ہے تاہم اس میں زندگی کے متعلق بڑی گہری باتیں بتائی جاتی ہیں اور زندگی کی ناہمواریوں کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے۔ اس مقصد کے لیے انشائیہ نگار ایک خاص اسلوب اپناتا ہے جس میں کسی قدر طنز کی آمیزش کے ساتھ ساتھ مزاح بھی ہوتا ہے۔
طنز کا پہلو بالکل کم ہوتا ہے اس لیے کہ انشائیہ کا ایک بنیادی مقصد مسرت بہم پہنچانا بھی ہے اور مزاح کی زیادتی سے انشائیے میں سطحیت در آتی ہے۔ انشائیہ نگار کسی موضوع پر ہلکے پھلکے انداز میں فکر و فلسفے کے دقیق نکات بیان کر جاتا ہے اور اشاروں اشاروں میں معنویت کی تہہ داریاں کھولتا ہے۔
انشائیہ نگار ہو چاہے مضمون نگار۔ دونوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اچھے اور بہترین نثر نگار ہوں۔ ساتھ ساتھ ان کا مطالعہ و مشاہدہ بھی کافی وسیع ہو اور معمولی بات کو بھی وہ اپنے زور قلم سے غیر معمولی بنانے پر عبور رکھتے ہوں۔
مضمون ایک تحریری ترکیب ہے جس کا مطلب اخبار ، رسالہ یا کسی اور اشاعت میں شائع ہونا ہے ... مضمون ایک ایسی ادبی ترکیب ہے جس کا مقصد کسی خاص مسئلے یا موضوع کا تجزیہ اور بحث کیا جاتا ہے۔