Sociology, asked by ranaiftikhar393, 4 months ago

اہل عرب کس مکان میں گھسنا معیوب سمجھتے تھے​

Answers

Answered by Anonymous
0

Answer:

سیرت النبی صلی' ا للہ علیہ و سلم ************* علامہ شبلی نعمانی رحمت اللہ علیہ ************* علامہ سید سلیمان ندوی رحمت اللہ علیہ ********* بسم اللہ الرحمن الرحیم ******** اسلام علیکم *** ---------------------------- 1 ؛- ھجری------------------------- اس وقت جب کہ دعوت حق کے جواب میں ہر طرف سے تلوار کی جھنکاریں سنائ دے رہی تھیِں، حافظ، عالم نے مسلمانوں کو دار الا مان مدینہ کی طرف رخ کرنے کاحکم دیا - لیکن خود وجود اقدس صلی' اللہ علیہ وسلم جو ان ستم کاروں کا حقیقی حدف تھا، اپنے لیئے خدا کے حکم کا منتظر تھا - مکہ کے باہر اطراف میں جو صاحب اثر مسلمان یو چکے تھے وہ جانثارانہ اپنی حفاظت، کی خدمت پیش، کرتے تھے - قبیلہء دوس ایک محفوظ قلعہ کا مالک تھا ، اس کے رئیس طفیل بن عمرو رضی اللہ عنہ بت اپنا قلعہ پیش کیا کہ آپ یہاں ہجرت کر آئیں لیکن آپ نے انکار فر مایا - اسی طرح بنی ہمدان کے ایک شخص نے بھی یہ خواہش کی تھی - بعد میں اس نےکہا، کہ وہ اپنے قبیلے کو مطلع کر کے اگلے سال آئے گا - لیکن کارسازقضا و قدر بے یہ شرف صرف انصار کے لیئے مخصوص کیا تھا - چنانچہ قبل ہجرت آنحضرت صلی' ا للہ علیہ وسلم نے خواب دیکھا کی کہ دار الہجرت ایک پر باغ و بہار مقام ہے - خیال تھا کہ وہ یمامہ یا ہجر کا شہر ہوگا لیکن وہ شہر مدینہ نکلا --------- نبوت کا تیر ھواِں سال شروع ہوا اور اکثر صحابہ اکرام مدینہ پہنچ چکے تو وحی الہی' کے مطابق آنحضرت صلی' ا للہ علیہ وسلم نے بھی مدینہ کا عزم فرمایا - یہ داستان نہایت پر اثر ہے اور اسی وجہ سے امام بخاری نے با وجود اختصار پسندی کے اس کو خوب پھیلا کر لکھا ہے، اور حضرت عائشہ رضی ' اللہ عنہ گو اس وقت سات آٹھ برس کی تھیں ، لیکن ان کا بیان درحقیقت خود رسول اللہ صلی' ا للہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق کا بیان ہے کہ انہی سے سن کر کہا ہوگا اور ابتدائے واقعہ میں وہ خود موجود تھیں - قریش نے دیکھا کہ اب مسلمان مدینہ جاکر طاقت پکڑتے جاتے ہیں اور وہاں اسلام پھیلتا جاتا ہے اس بناء پر انہوں نے دار الندوہ میں جو دار الشوری' تھا، اجلاس عام کیا، ہر قبیلے کے روءساء یعنی عتبہ ، ابو سفیان ، جبیر بن مطعم، نضر بن حارث بن کلدہ، ابو البختری، ابن ہشام، زمعہ بن اسود بن مطلب، حکیم بن حزام، ابو جہل، نبیہ و منبہ ، امیہ بن خلف وغیرہ وغیرہ سب شریک تھے ، لوگوں نے مختلف رائیں پیش کیں ، ایک نے کہا کہ" محمد کے ہاتھ پاوءں میں زنجیریں ڈال کر مکان میں بند کردیا جائے ". دوسرے نے کہا " جلا وطن کر دینا کافی ہے "- ابو جہل نے کہا " ہر قبیلہ سے ایک شخص کا انتخاب ہو ، اور پورا مجمع ایک ساتھ مل کر تلواروں سے خاتمہ کردے ، اس صورت میں ان کا خون تمام قبائل میں بٹ جائے گا ، اور آل ہاشم اکیلے تمام قبائل کا مقابلہ نہ کرسکیں گے "- اس آخیر رائے پر سب کا اتفاق ہوگیا،اور جھٹ پٹے سے آکر رسول اللہ صلی' ا للہ علیہ وسلم کے آستانہ مبارک کا محاصرہ کرلیا - اہل عرب زنانہ مکان کے اندر گھسنا معیوب سمجھتے تھے اس لیئے باہر ٹھہرے رہے کہ آنحضرت صلی' ا للہ علیہ وسلم نکلیں تو یہ فرض ادا کیا جائے - رسول اللہ صلی' ا للہ علیہ وسلم سے قریش،کو اس درجہ عداوت تھی، تاہم آپ کی دیانت پر اعتماد تھا - کہ جس شخص کو کچھ مال یا اسباب امانت رکھنا ہوتا تھا آپ ہی کے پاس لاکر رکھتا تھا - اس وقت بھی آپ کے پاس بہت امانتیں جمع تھیں ،آپ کو قریش کے ارادہ کی پہلے سے خبر ہو چکی تھی ، اس بناء پر حضرت علی کو بلا کر فر مایا کہ " مجھ کو ہجرت کا حکم ہوچکا ہے - میں آج مدینہ روانہ ہوجاوءں گا - تم میرے پلنگ پر میری چادر اوڑھ کر سو رہو ، صبح سب کی امانتیں جاکر واپس دے آنا " - یہ سخت خطرے کا موقع تھا ،حضرت علی کو معلوم ہوچکا تھا کہ قریش آپ کے قتل کا ارادہ کرچکے ہیں ، اور آج صلی' علیہ وسلم کا بستر خواب قتل گاہ کی زمین ہے لیکن فاتح خیبر کے لیئے قتل گاہ فرش گل تھا - ہجرت سے دو تین دن پہلے رسول اللہ صلی' ا للہ علیہ وسلم دوپہر کے وقت حضرت ابو بکر صدیق کے گھرپر گئے ، دستور کے موافق دستک دی ، اجازت کے بعد گھر میں تشریف لے گئے ، حضرت ابو بکر سے فرمایا. ،" کچھ مشورہ کرنا ہے ، سب کو ہٹا دو " - بولے کہ " یہاں آپ کے حرم کے سوا اورکوئ نہیں ہے" - (اس وقت حضرت عائشہ سے شادی ہوچکی تھی ) آپ نے فرمایا " مجھ کو ہجرت کی اجازت ہوگئ ہے " حضرت ابو بکر نے نہایت بیتابی سے کہا " میرا باپ آپ پر فدا ہو، کیا مجھ کو بھی ہمراہی کا شرف حاصل ہوگا، ارشادہوا " ہاں " حضرت ابو بکر نے چار مہینہ سے دو اونٹنیاں ببول کی پتیاں کھلا کھلا کر تیار کی تھیں ، عرض کی ان میں سے ایک آپ پسند فرمائیں محسن عالم کو کسی کا احسان گوارا نہیں ہوسکتا تھا ، ارشاد ہوا "اچھا مگر بہ قیمت " حضرت ابابکر نے مجبورا" قبول کیا - حضرت عائشہ اس وقت کمسن تھیں ، ان کی بڑی بہن اسماء نے جو حضرت عبد اللہ ابن زبیر کی ماں تھیں ، سفر کا سامان کیا، دو تین دن کا کھانا ناشتہ دان میں رکھا ،نطاق جس کو عورتیں کمر سے لپیٹتی ہیں ، پھاڑ کر اس،سے ناشتہ دان کا منہ باندھا - یہ وہ شرف تھا جس کی بناء پر آج تک ان کو ذات العطاقین کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے - کفار نے جب آپ کے گھر کا محاصرہ کیا اور

Answered by ujjwal26200
0

Answer:

جائزہ اسلام سے پہلے کے عرب میں مذہب مشرکیت ، عیسائیت ، یہودیت اور ایرانی مذاہب کا مرکب تھا۔ عرب مشرکیت ، ایک غالبا belief عقیدہ کا نظام ، دیوتاؤں اور دیگر مافوق الفطرت مخلوق جیسے دجنوں کے اعتقاد پر مبنی تھا۔ مکہ مکرمہ میں کعبہ جیسے مقامی مقامات پر خداؤں اور دیویوں کی پوجا کی جاتی تھی۔

Similar questions