درج ذیل اقتباس کی تشرتک سیاق و سباق کے حوالے سے کریں۔
اس بناپر جناب امیر حضرت علی رضی الله تعالی عنه قتلگاه فرش گل تھا۔
Answers
Answer:
جاننا چاہتا ہوں۔ اس سے لگتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اصل معاملہ کو سننے سے پہلے فیصلہ سنار ہے ہیں۔ مجرم کو چوری کی سزا دی جانی چاہیے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قتل کا فیصلہ صادر فرمادیا۔
سوال:
میں درج ذیل حدیث کادرجہ اور اس کا سیاق و سباق جاننا چاہتا ہوں۔ اس سے لگتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اصل معاملہ کو سننے سے پہلے فیصلہ سنار ہے ہیں۔ مجرم کو چوری کی سزا دی جانی چاہیے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قتل کا فیصلہ صادر فرمادیا۔
سنن ابی داؤد، کتاب الحدود، راوی حضرت جابر بن عبداللہ: ایک چور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ نے فرمایا: اسے قتل کردو۔ لوگوں نے کہا کہ اس نے چوری کی ہے، تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کا ہاتھ کاٹ دو۔ چنان چہ اس کا دایاں ہاتھ کاٹ دیا گیا۔ اسے دوبارہ لایا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس کو قتل کردو۔ لوگوں نے کہا کہ اس نے چوری کی ہے، تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کا ہاتھ کاٹ دو۔چناں چہ اس کا بایاں ہاتھ کاٹ دیا گیا۔ اسے تیسری بار لایا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس کو قتل کردو۔ لوگوں نے کہا کہ اس نے چوری کی ہے، تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کا ہاتھ کاٹ دو۔چناں چہ اس کا بایاں ہاتھ کاٹ دیا گیا۔اسے چوتھی بار لایا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس کو قتل کردو۔لوگوں نے کہا کہ اس نے چوری کی ہے، تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کا پاؤں کاٹ دو۔چناں چہ اس کا دایاں پاؤں کاٹ دیا گیا۔اسے پانچویں بار لایا گیاتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس کو قتل کردو۔چناں چہ صحابہ اس کو لے گئے اور قتل کردیا۔ پھر اسے گھسیٹ کر ایک کنویں میں ڈال دیا اور اوپر سے پتھرپھینک دیا۔
جواب نمبر: 1884
بسم الله الرحمن الرحيم
(فتوى: 433/ن = 421/ن)
(۱) اس حدیث کو نسائی کے علاوہ نے حسن کہا ہے اور نسائی نے اس کو ضعیف و منکر قرار دیا ہے۔ (بذل المجہود: ج۵ ص۱۳۷) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس شخص کے بارے میں جانتے تھے کہ وہ اپنے اس فعل سے باز نہیں آئے گا یہاں تک کہ اس کو قتل کردیا جائے اور وہ شخص فتنہ و فساد میں مشہور تھا اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی ہی مرتبہ میں اس کے قتل کا حکم فرمادیا، لیکن لوگوں کی سفارش کی وجہ سے چار دفعہ اس کو چھوڑدیا مگر پانچویں دفعہ اس کو قتل ہی کروادیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم صاحب شریعت اور امام تھے ان کو اس چیز کا اختیار تھا، تو حدیث مذکور سے یہ مطلب اخذ کرنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصل معاملہ سننے سے قبل ہی قتل کا فیصلہ فرمادیا، غلط ہے۔
(۲) یہ حکم اسی شخص کے ساتھ خاص تھا جو حکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بذریعہ وحی الٰہی فرمایا: وھو أن یکون ھذا من المفسدین في الأرض فإن للإمام أن یجتھد في تعزیر المفسد ویبلغ بہ ما رأی من العقوبة وإن زاد علی مقدار الحد وجاوزہ وإن رأی أن یقتل قتل... وقد یدل علی ذلک من نفس الحدیث أنہ صلی اللہ علیہ وسلم قد أمر بقتلہ لما جيء بہ أول مرة ثم کذلک في الثانیة والثالثة والرابعة إلی أن قتل في الخامسة فقد یحتمل أن یکون ھذا رجل مشھور بالفساد ومعلوم من أمرہ أنہ سیعود إلی سوء فعلہ ولا ینتھي عنہ حتی ینتہي حیاتہ، ویحتمل أن یکون ما فعلہ إن صحّ الحدیث إنما فعلہ لوحي من اللّہ تعالیٰ وإطلاع منہ علی ما سیکون منہ فیکون معنی الحدیث خاصا فیہ (بذل المجھود: ج۵ ص۱۳۷)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
Answer:
تم بھی میرے اونٹ پر سوار ہو لو ".
Explanation: