اسلامی ممالک میں سعودی عرب اور ایران ایک کلیدی حیثیت رکھتے ہیں مسلمانوں کے باہمی مسائل کو حل کرنے کے لیے ان دونوں ممالک کے باہمی اشتراک کے امکانات اور اثرات کا جائزہ لیں
Answers
Answer:
ایران اور سعودی عرب ساتھ کیوں نہیں چلتے؟
سعودی عرب اور ایران دو طاقتور ہمسائے ہیں اور خطے میں اپنی برتری کے لیے شدید کوشاں ہیں۔
دہائیوں سے چلا آرہا جھگڑا مذہبی اختلافات کی وجہ سے بڑھا ہے۔ یہ دونوں ممالک اسلام کی دو مرکزی شاخوں میں سے ایک کے پیروکار ہیں۔ ایران میں شیعہ مسلمانوں کی اکثریت ہے جبکہ سعودی عرب خود کو سنی مسلمانوں کے رہبر کے طور پر دیکھتا ہے۔
Explanation:
یہ مذہبی فرقہ واریت مشرق وسطیٰ کے نقشے پر مزید پھیلی ہوئی دکھائی دیتی ہے جہاں کچھ ملک شیعہ یا سنی اکثریت میں ہیں وہ ایران یا سعودی عرب کی جانب مدد یا رہنمائی کے لیے دیکھتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
ایران اور سعودی عرب دست و گریباں کیوں؟
’ایران اور سعودی عرب سے تعلقات میں توازن رکھیں گے‘
تین باہمی دشمنوں کے ساتھ چین نے تعلقات کیسے بنائے؟
سعودی عرب اور اسرائیل کی یہ بڑھتی قربت کیوں؟
تاریخی اعتبار سے سعودی عرب ہی میں اسلام کا آغاز ہوا اور وہ خود کو مسلم دنیا کے سربراہ کے طور پر دیکھتا آیا ہے۔ لیکن یہ صورتحال سنہ 1979 میں ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد تبدیل ہو گئی جب اس نے اس خطے میں ایک نئی قسم کی ’مذہبی انقلابی‘ ریاست بنائی اور اس کا ایک مشن اس نئے نظام کو اپنی سرحدوں کے باہر بھی متعارف کروانا تھا۔
گزشتہ 15 برسوں میں خاص طور پر ایران اور سعودی عرب کے درمیان اختلافات مختلف واقعات کی وجہ سے بڑھے ہیں۔
سنہ 2003 میں امریکہ کی سربراہی میں حملے کے نتیجے میں عراق میں صدام حسین کی حکومت ختم ہو گئی، جو کہ سنی عرب تھے اور ایران کے بڑے مخالف۔ اس سے علاقے میں ایران کا مقابلہ کرنے والی ایک بڑی فوجی طاقت ختم ہو گئی۔ بغداد میں شعیہ اثر و رسوخ والی حکومت کے لیے راستہ کھل گیا اور اس وقت سے ملک میں ایران کے اثر میں اضافہ ہو رہا ہے۔
اگر اب سیدھا سال 2011 کی بات کی جائے تو مختلف بغاوتوں کی بدولت عرب ممالک میں سیاسی عدم استحکام آیا جس سے پورا خطہ متاثر ہوا۔ ایران اور سعودی عرب نے اس موقع کو استعمال کرتے ہوئے خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کی خاص طور پر شام، بحرین اور یمن میں اور اسی دوران ان کے باہمی شکوک و شبہات میں مزید اضافہ ہوا۔
ایران کے ناقدین کہتے ہیں کہ وہ خطے میں اپنے آپ کو یا اپنے حمایت یافتہ گروہوں کو قائم کرنے کی پالیسی پر قائم ہے۔ اور اس طرح ایران سے بحیرہ روم تک اپنے کنٹرول والی زمینی راہداری بنانا چاہتا ہے۔
بات کہاں بگڑی؟
ایران کئی اعتبار سے خطے میں اپنی پالیسی میں کامیاب ہو رہا ہے اور یہی اس دشمنی میں تیزی کی ایک وجہ ہے۔
شام میں ایران اور روس کی حمایت سے صدر بشار الاسد اس قابل ہوئے کہ وہ سعودی عرب کے حمایت یافتہ باغی گروہوں کو بڑے پیمانے پر شکست دے سکیں۔
سعودی عرب ایران کے بڑھتے اثر و رسوخ کو کم کرنے کی شدید کوشش کر رہا ہے جبکہ سعودی عرب کے نوجوان ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے فوجی اقدامات سے خطے میں مزید کشیدگی بڑھ رہی ہے۔
انھوں نے یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف جنگ کا اعلان کر رکھا ہے تاکہ وہاں ان کے خیال میں جو ایران کا اثر و رسوخ ہے اسے ختم کیا جا سکے، لیکن چار سال گزرنے پر اب یہ فیصلہ مہنگا ثابت ہو رہا ہے۔
ایران نے حوثی باغیوں کو ہتھیار فراہم کرنے کے الزامات کی تردید کی ہے۔ تاہم اقوام متحدہ کے ماہرین نے اپنی رپورٹ میں اخذ کیا ہے کہ تہران کی جانب سے حوثیوں کی ہتھیار اور ٹیکنالوجی کی شکل میں مدد دی جاتی ہے۔
لبنان میں حزب اللہ نامی شیعہ ملیشیا کو ایران کی حمایت حاصل ہے اور سیاسی طاقت کے ساتھ ساتھ ان کے پاس ایک مسلح فورس بھی ہے۔ کئی مبصرین نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ سعودی عرب نے سال 2017 میں لبنان کے وزیر اعظم سعد ہریری کو اپنی حمایت کے باوجود استعفی دینے پر مجبور کیا تھا کیونکہ خطے کے تنازعات میں حزب اللہ کا ہاتھ تھا۔
بعد میں وہ لبنان واپس گئے تھے اور اپنے استعفی کو ملتوی کر دیا تھا۔
بیرونی قوتیں بھی اس سب میں شریک ہیں۔ امریکہ میں ٹرمپ انتظامیہ سعودی عرب کی حمایت کرتی ہے جبکہ ایران کو ایک بڑا خطرا ماننے کی وجہ سے اسرائیل بھی ایک طرح سے سعودی عرب کے ’ساتھ‘ ہے تاکہ ایران کو روکا جا سکے۔
ہے۔
need likes and rating