مجدد الف ثانی اور شاہ ولی اللہ کی اصلاح تحریکوں اور موجودہ دور کی تحریکوں میں کیا مماثلت ہے ؟
Answers
Answer:
کو بڑھانے کیلئے یہ بھی ضروری تھا کہ تاریخ میں ان کے مثبت کردار کو ابھارا جائے اور یہ ثابت کیا جائے کہ تاریخ میں علماء نے ہمیشہ شاندار خدمات انجام دی ہیں۔ اس قسم کی تاریخ لکھنے کا کام بھی علماء نے کیا اور یہ تاریخ عقیدت سے بھرپور جذبات کے ساتھ لکھی گئی کہ جس کو لکھتے وقت تاریخی واقعات کی تحقیق یا تجزیے کی ضرورت کو اہمیت نہیں دی گئی۔ بلکہ یہ کوشش کی گئی کہ علماء کی قربانیوں سے ان کے کردار اور مذہب سے ان کے لگاؤ اور شغف کو ظاہر کیا جائے۔ اس سلسلے میں سب سے اچھی مثال ابو الکلام آزاد (1888ء۔ 1958ء)کی ہے کہ جو مؤرخ نہیں تھے، ایک اچھے ادیب اور انشا پرداز تھے۔ انہوں نے” تذکرہ“ میں علماء کا ذکر کرتے ہوئے جو انداز اختیار کیا ہے وہ ادیبانہ ہے، تاریخی نہیں۔ مگر ان کے غیر تاریخی فیصلوں کا اثر ہمارے معاشرے پر بہت گہرا ہوا اور اس نے تاریخی گمراہی پیدا کرنے میں نمایاں حصہ لیا۔ مثلا ً احمد سرہندی(1564ء۔ 1624ء) کی شخصیت کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ:۔
”شہنشاہ اکبر کے عہد کے اختتام اور عہد جہانگیری کے اوائل میں کیا ہندوستان علماء اور مشائخ حق سے بالکل خالی ہو گیا تھا؟ کیسے کیسے اکابر موجود تھے؟ لیکن مفاسد وقت کی اصلاح و تجدید کا معاملہ کسی سے بھی بن نہ آیا۔ صرف حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمتہ الله علیہ کا وجود گرامی تن تنہا اس کاروبار میں کفیل ہوا“[1]۔