جدید دور میں مسلم امہ کو جو سیاسی، سماجی اور تہذیبی مشکلات کا سامنا ہے اس پر تنقیدی مضمون لکھیں
Answers
Answered by
3
Answer:
خبریں فکر و نظر حقوق انسانی ادبستان ویڈیو ہندی
ادبستانورق در ورق : مسلمانوں کی سیاسی اور معاشرتی تجزیہ نگاری کے نئے افق کو وا کرتی کتاب
| شافع قدوائی
Explanation:
Hope this helps.
Mark me as brainliest.
Thank you.
Answered by
6
Answer:
Heya!
Assalam u alaikum..
Here u go ✌.
Explanation:
روپےعلامہ اقبال نے طرزِ کہن پر اڑنے اور آئین نوسے ڈرنے کو قوموں کے حق میں زہر ہلاہل قرار دیا ہے مگر افسوس ہے کہ مسلمانوں نے اقبال کی تلقین پر کم ہی عمل کیا اور جب بھی مستقبل سازی کا ذکر کیا گیا تو ماضی کو مرکز نگاہ بنایا گیا۔ ‘ہندوستانی مسلمانوں کا مستقبل’ایک ایسا موضوع ہے جس پر گزشتہ ڈیڑھ سو سال سے اظہار خیال کیا جارہا ہے اور’مسلمان کیا کریں’کے جواب کی بہتات نے مسلمانوں کو انتشار میں مبتلا کردیا ہے اور اس گھٹاٹوپ اندھیرے میں روشنی کی نہ تو کوئی کرن نظر آتی ہے اور نہ ہی کوئی ایسی حکمت عملی مرتب کرنے کا سراغ ملتا ہے جس سے آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جا سکے۔مسلمانوں کی مشکلات کے جذباتی اور ہیجان انگیز بیان سے اردو اخبارات کے صفحات گراں بار نظر آتے ہیں مگر ان مسائل کے معروضی تجزیے اور ان کے ممکنہ اور قابل قبول حل کی نشاندہی کرنے والے مضامین بہت کم چھپتے ہیں.جواں سال مؤرخ اور معروف سیاسی تجزیہ نگار پروفیسر محمد سجاد اس صورت حال سے بجا طور پر کبیدہ خاطر نظر آتے ہیں اور انہوں نے اس موضوع کے وسیع تر تعلیمی، معاشرتی، اقتصادی اور سیاسی مضمرات سے مسلمانوں کو واقف کرانے کے لئے کئی فکر انگیز اور استدلالی مضامین مثلاً’ہندوستانی مسلمانوں کے گزشتہ 50 سال اور نئی صدی میں سمت کی تلاش، ہندوستان میں مسلم نمائندگی کا مسئلہ، ہندوستان کا سیاسی پس منظر اور مسلمانوں کے حصول اختیارات کا سوال، یو پی مذہبی عمارات بل اور یہاں کے مسلمان، مسلم رہنمائی کا تنقیدی جائزہ، بہار کے مسلمانوں میں جدید تعلیمی و سیاسی بیداری، بہار کی مسلم سیاست ، جمہوری سیاست، سوشل جسٹس اور مسلمانان بہار، مسلمانان بہار کے تئیں لالو اور رابڑی عہد حکومت کا رویہ اور مسلم سیاست انقلاب کی طرف گامزن’ تحریر کیے جو ملک کے مقتدر جرائد اور اخبارات میں شائع ہوئے اور اب یہ مضامین پروفیسر محمد سجاد کی تازہ ترین کتاب ‘ہندوستانی مسلمان: مسائل اور امکانات’میں شائع ہوئے ہیں جو حال ہی میں براؤن بُکس نے شائع کی ہے. مسلمانوں کے مسائل کا حل ملی اتحاد میں ڈھونڈا جاتا ہے اور معاشرتی اور اقتصادی امور کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی ہے۔ مسائل کا غیر جذباتی انداز میں محاسبہ کرتے ہوئے پروفیسر سجاد نے لکھا ہے کہ مسلمان عموماً مذہبی یا نیم مذہبی تحریکوں میں پورے جوش و خروش سے حصہ لیتے ہیں اورملک گیر سطح پر چلنے والی مقبول تحریکوں مثلاً زرعی اصلاحات، عورتوں کی آزادی، دلتوں کی فلاح و بہبود، تعلیم اور صحت اور پنچایت راج تحریک سے بے اعتنائی برتتے ہیں۔اس سے مسلمانوں میں شعوری طور پر الگ تھلگ رہنے کی روش (Isolation Syndrome) نے رواج پا لیا۔ مسلمان سرکاری ملازمتوں میں ریزرویشن کا مطالبہ تو کرتے ہیں مگر خانقاہوں اور اوقاف کی جائیداد، آمدنی و اخراجات اور اس کے نظم و نسق اور ان اداروں میں جمہوری طرز عمل کو بروئے کار لانے اور شفافیت اور جواب دہی کے اصولوں کی پاسداری پر کوئی دھیان نہیں دیتے ہیں.مسئلہ کے لیے حکومت کو موردِ الزام ٹھہرانے کی جذباتی روش پروفیسر سجاد کو خوش نہیں آتی اور ان کی یہ رائے حق بجانب محسوس ہوتی ہے کہ اگر مذکورہ اداروں سے بدعنوانی کے مختلف طریقوں کو ختم کرنے کی تحریک چلائی جائے تو ان کے وسائل سے تعلیمی ادارے اور اسپتال بہت اچھے طریقے سے چلائے جا سکتے ہیں اور مسلمانوں کی بدحالی کا بڑے پیمانے پر ازالہ کیا جاسکتا ہے۔ ہندوستان میں مطلقہ عورتوں کی حرمت اور انہیں معاشرہ میں باعزت زندگی گزارنے کی سعی کرنے والا کوئی ادارہ یا تنظیم نہیں ہے اور نہ ہی مسلم پرسنل لا بورڈ عورتوں کو بااختیار بنانے کے سوال کو موضوع گفتگو بنا رہا ہے۔ مسلمانوں کو خود اپنی اصلاح کرنے سے کون روکتا ہے جبکہ بیشتر اسلامی ملکوں ایسا کیا جا چکا ہے۔ مصنف کا یہ سوال خاصی اہمیت کا حامل ہے.
By_____Warrior__Farhat.✌
Similar questions