Hindi, asked by phenomenal292, 2 months ago

افسانہ کالی شلوار کا تجزیہ کرے​

Answers

Answered by Anonymous
10

Answer:

\huge\mathcal{\fcolorbox{cyan}{black}{\pink{Answer࿐}}}

سعادت حسن منٹو

۱۹۵۰, لا ہور

میں ساقی بک ڈپو دہلی کی مطبوعہ کتاب بعنوان “دھواں ” کا مصنف ہوں ۔ یہ کتاب میں نے 1941 میں جب کہ میں آل انڈیا ریڈیو دہلی میں ملازم تھا، ساقی بک ڈپو کے مالک میاں شاہد احمد صاحب کے پاس غالباً تین یا ساڑھے تین سو روپے میں فروخت کی تھی۔ اس کے جملہ حقوق اشاعت اب ساقی بک ڈپو کے پاس ہیں ۔ اس کتاب کے جو نسخے میں نے عدالت میں دیکھے ہیں

، ان کے ملاحظہ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کتاب کا دوسرا ایڈیشن ہے ۔ چوبیس افسانوں کے اس مجموعے میں جو انسانی زندگی کے مختلف شعبوں سے متعلق ہیں، دو افسانے بعنوان “دھواں “، اور “کالی شلوار” استغاثے کے نزدیک عریاں اور فحش ہیں ۔ مجھے اس سے اختلاف ہے، کیوں کہ یہ دونوں کہانیاں عریاں اور فحش نہیں ہیں ۔

کسی ادب پارے کے متعلق ایک روزانہ اخبار کے ایڈیٹر، ایک اشتہار فراہم کرنے والے اور ایک سرکاری مترجم کا فیصلہ صائب نہیں ہو سکتا۔ بہت ممکن ہے کہ یہ تینوں کسی خاص اثر، کسی خاص غرض کے ماتحت اپنی رائے قائم کر رہے ہوں اور پھر یہ بھی ممکن ہے کہ تینوں حضرات ایسی رائے دینے کے اہل ہی نہ ہوں ۔ کیوں کہ کسی بڑے شاعر، کسی بڑے افسانہ نگار کے افسانوں پر صرف وہی آدمی تنقید کر سکتا ہے جو تنقید نگاری کے فن کے تمام عواقب و عواطف سے آگاہ ہو۔

=============•✠•============

Answered by AngeIianDevil
44

\Large\mathtt\green{ }\huge\underline\mathtt\red{Answer : }

دہلی آنے سے پہلے وہ ابنالہ چھاؤنی میں تھی جہاں کئی

گورے اس کے گاہک تھے۔ ان گوروں سے ملنے جلنے کے باعث وہ انگریزی کے دس پندرہ جملے سیکھ گئی تھی، ان کو وہ عام گفتگو میں استعمال نہیں کرتی تھی لیکن جب وہ دہلی میں آئی اوراس کا کاروبار نہ چلا تو ایک روز اس نے اپنی پڑوسن طمنچہ جان سے کہا۔

”دِ س لیف۔ ویری بیڈ۔ “

یعنی یہ زندگی بہت بُری ہے جبکہ کھانے ہی کو نہیں ملتا۔ ابنالہ چھاؤنی میں اس کا دھندا بہت اچھی طرح چلتا تھا۔ چھاؤنی کے گورے شراب پی کر اس کے پاس آجاتے تھے اور وہ تین چار گھنٹوں ہی میں آٹھ دس گوروں کو نمٹا کر بیس تیس روپے پیدا کر لیا کرتی تھی۔ یہ گورے، اس کے ہم وطنوں کے مقابلے میں بہت اچھے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایسی زبان بولتے تھے جس کا مطلب سلطانہ کی سمجھ میں نہیں آتا تھا مگر ان کی زبان سے یہ لاعلمی اس کے حق میں بہت اچھی ثابت ہوتی تھی۔ اگر وہ اس سے کچھ رعایت چاہتے تو وہ سر ہلا کرکہہ دیا کرتی تھی۔

”صاحب، ہماری سمجھ میں تمہاری بات نہیں آتا۔ “

اور اگر وہ اس سے ضرورت سے زیادہ چھیڑ چھاڑ کرتے تو وہ ان کو اپنی زبان میں گالیاں دینا شروع کردیتی تھی۔ وہ حیرت میں اس کے منہ کی طرف دیکھتے تو وہ ان سے کہتی

”صاحب، تم ایک دم اُلو کا پٹھا ہے۔ حرامزادہ ہے۔ سمجھا

 <marquee> ««❤︎ hope it help you ❤︎««

Similar questions