پاٹھے والوں نے اپنیشکشتکابدلہ کس طرح لیا
Answers
Answer:
جو لوگ اردو میں لکھتے پڑھتے ہیں ان کے دلوں میں کلدیپ نیئر کا ایک خاص مقام تھا۔ مذہبی رواداری اور انسان دوستی کا اُن جیسا علم بردار اب مشکل سے ہی نظر آتا ہے۔ ایک خلا ہے جو دور دور تک پُر ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔ کلدیپ نیئر خود بھی اردو اور اس زبان کے بولنے والوں کو بہت عزیز رکھتے تھے۔ گو کہ اردو اخبار انجام میں جہاں سے انہوں نے اپنے صحافتی کیریئر کا آغاز کیا تھا ان کا قیام بہت ہی قلیل مدّت کے لئے تھا مگر وہ زندگی بھر اس بات کا اظہار کرتے رہے کہ انہوں نے اپنے صحافتی کیریئر کا آغاز ایک اردو اخبار سے کیا تھا۔وہ بہت کم وقت میں بہت اونچے مقام تک پہنچ گئے۔ انگریزی کے دو معتبر روزناموں سٹیٹسمین اور انڈین ایکسپریس میں اہم ذمّہ داریاں نبھائیں اور ہندوستان میں دو میں سے ایک نیوز ایجنسی یو این آئی کے سربراہ رہے۔ اس کے علاوہ پچیس سالوں تک دی ٹائمز لندن کے نامہ نگار رہے۔ انھیں اپنی اردو والی پہچان کو ڈھونے کی ایسی کوئی ضرورت نہیں تھی اس کے باوجود وہ زندگی بھر اس پر اصرار کرتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ اخبارات میں ان پر چھپے تمام مضامین میں یہ ذکر موجود ہے کہ انہوں نے اپنی صحافت کا آغاز ایک اردو اخبار سے کیا تھا۔وہ سیالکوٹ میں پیدا ہوۓ تھے اور اس بات پر بھی فخر کرتے تھے کہ وہ اس جگہ کے رہنے والے ہیں جس نے اردو کے دو بڑے شاعروں علامہ اقبال اور فیض احمد فیض کو پیدا کیا۔اردو سے ان کے لگاؤ کا ایک اور ثبوت ان کا ہفتہ وار سنڈیکیٹڈ کالم “بِٹوِین دی لائنز” تھا جو وہ انیس سو پچاسی سے مسلسل لکھ رہے تھے۔ انگریزی میں لکھا ہوا ان کا یہ کالم ہندوستان کی تمام اہم زبانوں کے تقریباً اسی خبارات میں چھپا کرتا تھا جن میں اردو کے اخبارات بھی شامل تھے۔ مگر اردو اخبارات کو یہ امتیاز حاصل تھا کہ انھیں ان کا کالم اردو میں ہی ملتا تھا کیونکہ اس کا اردو ترجمہ وہ اپنی نگرانی میں کرواتے تھے۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ کلدیپ نیئر ہندوستان کے واحد سنڈیکیٹڈ کالم نویس تھے جو ہندوستان کی ہر زبان میں پڑھے جاتے تھے۔ یوروپ اور امریکا میں بہت سارے معروف صحافیوں نے اپنے نام سے سنڈیکیٹڈ کالم جاری کر رکھا ہے۔ ہندوستان میں اس کی روایت کلدیپ نیئر نے شروع کی اور کامیاب رہے۔ یہ حقیقت غور طلب ہے کہ ہمارے یہاں تقریباً تمام معروف صحافی اپنے نام سے کالم لکھتے ہیں جو کسی مخصوص اخبار یا رسالے میں شائع ہوکر رہ جاتا جبکہ کلدیپ نیئر کا کالم نہ صرف ہندوستان کے مختلف علاقائی اور لسانی اخبارات میں چھپتا تھا بلکہ پاکستان، بنگلہ دیش اور خلیجی ممالک کے اخبارات کی زینت بھی بنتا تھا۔ خشونت سنگھ ملک کے دوسرے مقبول ترین کالم نویس تھے۔ ان کے قارئین ان کے قلم کی چاشنی کے اسیر تھے اور ان کے کالم کا انتظار کیا کرتے تھے۔ اس کے باوجود انہوں نے اپنے نام سے سنڈیکیٹ شروع نہیں کیا اور اپنے آپ کو ہندوستان ٹائمز اور انگریزی زبان تک محدود رکھا جبکہ وہ اردو اور فارسی کے اسکالر بھی تھے۔More in حقوق انسانی :ہندوستانی خواتین جب جیل جاتی ہیں تب وہ جیل کے اندر ایک اور قید خانے میں داخل ہوتی ہیں…
Explanation: