حضرت علی کی شخصیت ہمارے لیے قابل تقلید نمونہ ہے نوٹ لکھیں۔
Answers
Answer:
ولادت سے وفات تک:
حضرت علی کرم اللہ وجہہ بن ابی طالب فاطمہ بنت اسد کے بطن سے ایک روایت کے مطابق اندرون خانہ کعبہ چھٹی صدی عیسوی میں پیدا ہوئے۔ صغرسنی میں بعض وجوہ کی بنا پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کفالت میں آگئے اور دربار نبوت سے آخر تک جڑے رہے۔ دس سال کی عمر میں اسلام قبول کیا۔ خود فرمایا کرتے تھے کہ میں نے بتوں کی پوجا کبھی نہیں کی، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مجھ سے پہلے کسی نے خدا کی عبادت نہیں کی۔ابتدائی عمر سے ہی حضور سے از حد زیادہ محبت کرتے تھے۔ جب کوہ صفا پر چڑھ کر حضور نے اعلان نبوت کیاتو آپکی آواز پر کسی نے بھی کان نہیں دھرا، مگر حضرت علی جو اس وقت عمر میں صرف ۱۵/ سال کے تھے، کہا: ”گوکہ میں عمر میں چھوٹا ہوں اور مجھے آشوب چشم کا عارضہ ہے، اورمیری ٹانگیں پتلی ہیں، تاہم آپ کا باور دست و بازو بنوں گا۔ جس وقت آپ کی عمر ۲۲ سال کی تھی آپ اپنی جان کی بازی لگاکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر پر پوری رات لیٹے رہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کے لیے نکل گئے۔ اس کے تین دن بعد خود بھی حضور سے جاملے۔ مدینہ پہنچنے کے بعد جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جو مظاہرہ کیا اور جو کارہائے نمایاں انجام دئیے وہ آپ کی زندگی کا اہم باب ہے۔ سوائے ایک جنگ کے آپ نے ہر جنگ میں شرکت کی اور داد شجاعت دیا۔ غزوئہ تبوک کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو جنگ میں شرکت سے روک دیا اور اہل بیت کی حفاظت ونگرانی کے لیے مدینہ ہی میں رہنے کا حکم دیا تو اس کا آپ کو بہت قلق ہوا، مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہہ کر ان کے اعزاز کو بلند کیا کہ ”علی تم اسے پسند نہیں کرتے کہ میرے نزدیک تمہارا وہ مقام اور درجہ ہو جو ہارون کا موسیٰ کے نزدیک تھا۔ حضرت علی کی اہمیت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک کتنی تھی اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بالعموم اہم اور مشکل ترین امور کی انجام دہی کے لیے حضرت علی کو مامور فرماتے۔ جب تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم زندہ رہے، دامے، درمے، قدمے، سخنے ہر لحاظ سے حضور کی فرماں برداری اور اطاعت کرتے رہے۔ اسی جاں نثاری کو دیکھ کر حضور نے غدیر خم کے خطبہ میں فرمایا کہ: ”جو علی کا دشمن ہے وہ میرا بھی دشمن ہے اور جو علی کا دوست ہے وہ میرا بھی دوست ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد خلیفہ سوم کے زمانے تک میں بھی اہم کارنامے اور خدمات انجام دیں اور جنگی معرکے سرکیے۔ اور جب خود خلیفہ بنے تو باوجود پورے ملک میں بدامنی اور خلفشاری کے حالات پر قابوپائے، مگر دشمنوں نے آپ کو زیادہ دن حکومت کرنے نہیں دیا اور آپ کو قتل کردیا۔ آپ کا انتقال ۴۰ھء میں ہوا۔ کل ۴/سال نو مہینے حکومت کرسکے۔ آپ کی تعلیمات، خطبات، وصایا، انشاپردازی اور اخلاقی اقدارکا شاہکار مجموعہ نہج البلاغہ ہے، جسے شریف رضی نے جمع کیا ہے۔ پیش نظر مضمون میں حضرت علی کے بعض اہم اخلاقی قدروں پر روشنی ڈالی گئی ہے جو انسانوں کے لیے مینارئہ نور ہیں۔
Explanation:
Hope this helps.