ماں بی بی مرنے کے چند گھنٹے پہلے سر سید کو …………کاشربت پیلا رہی تھی
Answers
،تصویر کا کیپشن
،تصویر کا کیپشنسر سید احمد خاں نے سنہ 1875 میں جو تعلیمی ادارہ قائم کیا تھا وہ بعد میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے نام سہ پہچانا گیا
،تصویر کا کیپشنسر سید احمد خاں نے سنہ 1875 میں جو تعلیمی ادارہ قائم کیا تھا وہ بعد میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے نام سہ پہچانا گیاعلی گڑھ تحریک کو اگر ہندوستان کے پس منظر میں دیکھیں تو یہ ایک قسم کا نشاۃ الثانیہ ہے جسے انڈیا کے نشاۃ الثانیہ کا ایک حصہ سمجھنا چاہیے، جس طرح بنگال کا نشاۃ الثانیہ بھی اس کی تاریخ کا حصہ تھا۔
،تصویر کا کیپشنسر سید احمد خاں نے سنہ 1875 میں جو تعلیمی ادارہ قائم کیا تھا وہ بعد میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے نام سہ پہچانا گیاعلی گڑھ تحریک کو اگر ہندوستان کے پس منظر میں دیکھیں تو یہ ایک قسم کا نشاۃ الثانیہ ہے جسے انڈیا کے نشاۃ الثانیہ کا ایک حصہ سمجھنا چاہیے، جس طرح بنگال کا نشاۃ الثانیہ بھی اس کی تاریخ کا حصہ تھا۔اگر آپ سر سید کے طرز تخیل کو دیکھیں تو آپ یہی پائیں گے کہ ان پر جدید تہذیب کا دو طرح سے اثر ہوا۔
،تصویر کا کیپشنسر سید احمد خاں نے سنہ 1875 میں جو تعلیمی ادارہ قائم کیا تھا وہ بعد میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے نام سہ پہچانا گیاعلی گڑھ تحریک کو اگر ہندوستان کے پس منظر میں دیکھیں تو یہ ایک قسم کا نشاۃ الثانیہ ہے جسے انڈیا کے نشاۃ الثانیہ کا ایک حصہ سمجھنا چاہیے، جس طرح بنگال کا نشاۃ الثانیہ بھی اس کی تاریخ کا حصہ تھا۔اگر آپ سر سید کے طرز تخیل کو دیکھیں تو آپ یہی پائیں گے کہ ان پر جدید تہذیب کا دو طرح سے اثر ہوا۔ایک یہ کہ جب انگریزی تعلیم اور تصانیف سے ان کی واقفیت ہوئی تو انھوں نے دیکھا کہ تعلیم اور سائنس کی ایک بالکل نئی دنیا کھلتی ہے۔
،تصویر کا کیپشنسر سید احمد خاں نے سنہ 1875 میں جو تعلیمی ادارہ قائم کیا تھا وہ بعد میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے نام سہ پہچانا گیاعلی گڑھ تحریک کو اگر ہندوستان کے پس منظر میں دیکھیں تو یہ ایک قسم کا نشاۃ الثانیہ ہے جسے انڈیا کے نشاۃ الثانیہ کا ایک حصہ سمجھنا چاہیے، جس طرح بنگال کا نشاۃ الثانیہ بھی اس کی تاریخ کا حصہ تھا۔اگر آپ سر سید کے طرز تخیل کو دیکھیں تو آپ یہی پائیں گے کہ ان پر جدید تہذیب کا دو طرح سے اثر ہوا۔ایک یہ کہ جب انگریزی تعلیم اور تصانیف سے ان کی واقفیت ہوئی تو انھوں نے دیکھا کہ تعلیم اور سائنس کی ایک بالکل نئی دنیا کھلتی ہے۔تاریخ جیسے روایتی مضامین بھی بالکل نئی طرح سے ان کے سامنے آتے ہیں۔ چنانچہ اس سے متاثر ہو کر انھوں نے ’آثارالصنادید‘ لکھی۔ ان سے پہلے فارسی اور اردو میں تاریخی عمارتوں پر ایسی کوئی کتاب نہیں لکھی گئی تھی۔