India Languages, asked by vvovooo, 11 months ago

شام میں، براہ مہربانی مجھ سے پوچھ گچھ نہ کریں کہ اگر آپ اس مضمون کی پیداوار لکھنا چاہتے ہیں تو بچپن کی یادیں بیان کرنا ہے: جگہ، احساسات، پندرہ
آپ کے جوابات کے لئے مکہ

Answers

Answered by mahfoozfarhan4
5

دوست بنئے

دوست بنائے

ڈیل کارنیگی

پہلا حصہ

باب اول

اگر آپ شہد حاصل کرنا چاہتے ہیں تو چھتے کو ٹھوکر نہ ماریں

۷ مئی ۱۹۳۱ء کو نیو یارک شہر کا بدنام ترین قاتل کرولی ’’ ٹوگن‘‘ کئی ہفتوں کی سرتوڑ کوشش کے بعد شہر کے ویسٹ اینڈ میں اپنی محبوبہ کے گھر سے پکڑا گیارہ کرولی نہ تو سگریٹ پیتا تھا اور نہ ہی شراب ایک سو پچاس کے قریب پولیس والے اور جاسوس اس کی محبوبہ کے اپارٹمنٹ کو گھیرے میں لیے ہوئے تھے۔ انہوں نے گھر کی چھتوں میں سوراک کئے اور ان میں آنسو گیس چھوڑی تاکہ دھوئیں سے گھبر اکر کرو کی باہر نکلنے پر مجبور ہو جائے۔ اس کے بعد انہوں نے ارد گرد کے گھروں میں اپنی مشین گنیں نصب کر دیں اور پھر نیویارک شہر کا سب سے عمدہ رہائشی علاقہ ایک گھنٹے سے زائد عرصے تک گولیوں کی آواز سے گونجتا رہا۔ کرولی ایک ایسی کرسی کے پیچھے چھپا ہوا پولیس پر اندھا دھند فائرنگ کر رہا تھا جس میں گھر کی بے شمار فالتو چیزیں رکھی ہوئی تھیں۔ ارد گرد کی عمارتوں پر تقریباً دس ہزار افراد اس لڑائی کو حیرانگی سے دیکھ رہے تھے۔ جو اس سے قبل نیویارک کے علاقے میں نہیں لڑی گئی تھی۔

کرولی ’’ ٹوگن‘‘ جب پکڑا گیا تو پولیس کے کمشنر ای پی لوونی نے اعلان کیا کہ نیویارک شہر کی تاریخ کا خطرناک ترین قاتل ’’ ٹوگن‘‘ پکڑا گیا ہے اور چھتوں پر چڑھے ہوئے لوگ اپنی چھتوں سے اتر جائیں یہ آدمی بہت خطرناک ہے۔

لیکن کرولی ’’ ٹوگن‘‘ اپنے آپ کو کیا سمجھتا تھا؟ آپ کو حیرانگی ہو گی کہ جب پولیس اس کے اپارٹمنٹ میں اندھا دھند فائرنگ کر رہی تھی تو وہ بڑے اطمینان سے وہاں بیٹھا خط لکھ رہا تھا۔ میں وہ To whan it miy concern سے مخاطب تھا۔ خون کے چھینٹے کاغذ پر گر رہے تھے۔ اس نے اپنے خط میں لکھا کہ ’’ میرا دل بہت آزردہ ہے اور یہ کسی کو بھی نقصان نہیں پہنچائے گا۔‘‘

اپنی گرفتاری سے کچھ دیر قبل کرولی اپنی محبوبہ کے ساتھ ایک پارٹی میں شریک تھا اور پارٹی کے ختم ہونے پر جب وہ اپنی کار میں بیٹھ رہا تھا تو اچانک ایک پولیس مین اس کے پاس آیا اور اس سے ڈرائیونگ لائسنس طلب کیا۔ ایک لفظ کہے بغیر اسے گولیوں سے بھون ڈالا۔ جونہی وہ پولیس مین زمین پر گرا۔ کرولی اپنی کار سے باہر نکلا اور اس نے مرے ہوئے پولیس مین کا پستول نکال کر اسکے مردہ جسم میں ایک اور گولی داغ دی اور یہ اس قاتل کا اقدام تھا۔ جس نے اپنے خط میں یہ لکھا تھا۔ ’’ میرا دل بہت افسردہ ہے میں کسی کو بھی نقصان نہیں پہنچا سکتا، اس سے اس کے خطرناک ہونے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔‘‘

کرولی پر مقدمہ چلا اور اسے سزائے موت دی گئی۔ اسے جب الیکٹرک چیئر پر بٹھانے کے لئے ’’ سنگ سنگ‘‘ نامی موت کے گھر میں لایا گیا تو اس نے کہا کہ ’’ یہ سزا وہ نہیں ہے جو مجھے انسانوں کو قتل کرنے کے عوض مل رہی ہے بلکہ یہ وہ سزا ہے جو مجھے اپنی حفاظت کرنے کے جرم میں مل رہی ہے۔‘‘ اس کے یہی الفاظ کہانی کا آغاز ہیں۔ جس نام ’’ ٹوگن‘‘ ہے کرول اپنے آپ کو اتنے انسانوں کو قتل کرنے کا ذمہ دار نہیں سمجھتا۔ کیا قتل کے مجرموں کا یہی رویہ ہوتا ہے جب انہیں سزائے موت دی جا رہی ہوتی ہے؟ اگر آپ یہی سمجھتے ہیں تو کرول کی زبانی اس کی کہانی سنیں۔

’’ میں نے اپنی زندگی کے بہترین سال لوگوں کو خوشیاں دیتے ہوئے گذارے میں نے اپنے اچھے دنوں میں بے شمار ضرورت مند لوگوں کی مدد کی۔ لیکن اس کے بدلے میں مجھے صرف گالیاں ملیں۔ جس نے مجھے ایک قاتل بننے پر مجبور کیا۔‘‘ یہی بات کیپون نے کہی جو امریکہ کی تاریخ کا سب سے بدنام ترین قاتل تھا اس نے شکاگو میں بے شمار انسانوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگے تھے لیکن اس نے اپنے آپ کو کبھی مجرم نہیں سمجھا تھا۔ وہ اپنے آپ کو عوام کا خادم تصور کرتا تھا۔

Similar questions