CBSE BOARD X, asked by zunaira5764, 1 month ago

کوئی بھی کہانی سن کر کرداروں کا نام بتانا۔


i.
اطلاق کرنا


ii.
یاد رکھنا


iii.
تخلیق کرنا​

Answers

Answered by gyaneshwarsingh882
0

کیا آپ کو وہ دن یاد ہے جب سکول میں کسی ٹیچر نے کوئی کہانی سنائی ہو؟‘ کہانیوں کے فوائد گنواتے ہوئے میں لوگوں سے یہ سوال اکثر پوچھتا ہوں۔

تھوڑی دیر تک میرے مخاطب کے چہرے پر ایک خوشگوار تاثر پھیل جاتا ہے جس دوران اُس کا ذہن اپنے بچپن پر کہیں نقش ایک خوشگوار یاد ڈھونڈ کر اس سے دوبارہ محظوظ ہو رہا ہوتا ہے۔ کہانیاں اور اُن کو سننے کا تجربہ ہمیں بیسیوں سال گزر جانے پر بھی نہیں بھولتے۔

کسی بھی صحت مند معاشرے میں بچوں اور کتابوں میں ایک قدرتی ربط ہوتا ہے۔ بچوں کا ادب، جو کسی بھی ادب کا اہم ترین سرمایہ ہوتا ہے، اس ربط کے ذریعے بچوں تک باآسانی اور مسلسل منتقل ہوتا رہتا ہے۔

اس سلسلے میں نانی، دادی کی سنائی گئی لوک کہانیاں بھی شامل ہیں، والدین کی پڑھ کر سنائی گئی اُن کی پسندیدہ کہانیاں بھی، اوروہ پرانے قصے اور نئی کہانیاں بھی جو رسالوں اور بچوں کے لیے لکھی گئی کتابوں میں شائع ہو کر دکانوں اور لائبریریوں کے ذریعے بچوں تک پہنچتی ہیں۔ اِن وسیلوں میں اب آن لائن ذرائع کو بھی شامل کر لیں۔ غرض ایسے معاشرے میں کہانیوں کی دنیا کبھی بھی بچوں کی پہنچ سے دور نہیں ہوتی۔

یہ کہانیوں کی دنیا بچوں کو پڑھنے کا شائق بناتی ہے۔ وہ اس کے ذریعے زبان اور اس کی خوبصورتی سے غیر محسوس طور پر متعارف اور ادبی ذوق سے آشنا ہوتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

پہلی جنگ عظیم: ہندوستانی فوجیوں کی غیر معمولی کہانیاں

گلیات کی ’خوبصورتی کے پیچھے چھپی بدصورت کہانیاں‘

سکندر کو سکندر کہانی نے بنایا

زبان کو سمجھنے اور اُس کے استعمال پر مہارت اگر ایک طرف مختلف علوم میں ان کی خود آموزی کی سہولت بڑھاتی ہے تو دوسری طرف ادب سے آشنائی ان کی نظروں سے انسان اور اُس کی مجبوریوں اور کمزوریوں پر پڑا پردہ اُٹھانے لگتی ہے۔

جب یہ پردہ ایک دفعہ اُٹھ جاتا ہے تو وہ دوسرے انسانوں کو ہمدردی کی نظر سے دیکھنے اور خود اپنی خامیاں تسلیم کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ یہی ادب کی سب سے بڑی اور اہم ترین تعلیم ہے۔

کہانی

،تصویر کا ذریعہ

’اپنا سا شوق اوروں میں لائیں کہاں سے ہم‘

اب ذرا بتائیے کہ جس معاشرے کا اوپر ذکر کیا گیا ہے وہ ہمارے اپنے معاشرے سے کتنی مماثلت رکھتا ہے؟

خیر، آج کل حالات ہر جگہ دگرگوں ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ ہمارے بچوں اور کتابوں کے درمیان ربط اور زبان سے اُن کے رشتے کو باآسانی بحال کیا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ ربط اتنے عرصے سے ٹوٹا ہوا ہے کہ اب یہ صرف دلچسپ کہانیاں شائع کرنے سے پوری طرح نہ جُڑ پائے گا اور نہ ہی یہ مسئلہ اردو کتابوں کی خوبصورت طباعت سے حل ہوگا۔

ان دونوں چیزوں کا تجربہ میں کئی دفعہ کر چکا ہوں۔ آپ بچوں کے سامنے کسی دیدہ زیب ایڈیشن میں چھپی اردو میں لکھی کوئی دلچسپ کہانی رکھ دیں۔ عموماً بچے اس کتاب کو سونگھ سانگھ کر چھوڑ دیں گے۔ کوئی کوئی بچہ اسے ایک آدھ دفعہ پڑھ لے گا۔ لیکن وہ کہانی ان کی زندگی کا ایک اہم حصہ نہ بن پائے گی۔

اردو پڑھانے کے مروّج غیر دلچسپ طریقوں، اعلیٰ درجے کے سکولوں میں اردو زبان اور اس کے پڑھانے والے اساتذہ کی ثانوی حیثیت، اورسکولوں کے لیے اردو نصاب مرتب کرنے والے حضرات کی کوڑھ مغزی اور کور ذوقی نے یہ بات یقینی بنا دی ہے کہ اردو کا نام آتے ہی بچے بدک جائیں۔

تو آخر وہ کون سی جادو کی چھڑی ہے جس کو ہلاتے ہی یہ معاملات ٹھیک ہو سکتے ہیں؟ آپ یقین کریں یا نہیں، یہ ربط بچوں کو کہانی سنانے کے آسان عمل سے تمام و کمال جڑ سکتا ہے۔ اور اگر یہ کہانیاں اس طریقے سے سنائی جائیں کہ بچوں کی اس عمل میں شمولیت بھی ہو تو اس کی افادیت مزید بڑھ جاتی ہے۔

آپ میں سے کچھ لوگ شاید اس بات سے واقف ہوں کہ میں بچوں اور بڑوں دونوں کے لیے انگریزی میں کہانیاں لکھتا اور اردو کلاسیکی ادب کا انگریزی میں ترجمہ کرتا ہوں اور کچھ سال سے اسٹوری کٹ کے نام سے جاری ایک پروگرام کے ذریعے میں اردو اور پاکستان کی دیگر زبانوں کی لوک کہانیوں کو شائع کرتا اور سناتا بھی ہوں۔

اس کام میں اب ایک پوری ٹیم میرے ساتھ ہے جو مختلف سکولوں میں بچوں کو اردو میں کہانیاں سناتی ہے اور اس کے بعد انھیں اُن کہانیوں کو کتابی شکل میں متعارف کرواتی ہے۔ اسٹوری کٹ کے ڈبّے میں کہانی کے پلاٹ پر مبنی ایک کھیل اور کہانی کی آڈیو ریکارڈنگ بھی شامل ہوتی ہے۔

Similar questions