khana puri kijiye
urgent plz
Answers
Answer:
hxxhxydufujfzfhfufdyufufxyfhcjcj
۔
۔ اس کی آمد پر کافی شور مچا۔ بڑی پوسٹر بازی ہوئی۔ دو پارٹیاں بن گئی تھیں۔ ایک شہزادہ معظم جاہ کے کاسہ لیسوں کی۔ دوسری نسیم بانو کے ہمدردوں کی، بہت دیر تک کیچڑ اچھالی گئی، اس کے بعد یہ معاملہ خاموش ہوگیا۔
۔ اس کی آمد پر کافی شور مچا۔ بڑی پوسٹر بازی ہوئی۔ دو پارٹیاں بن گئی تھیں۔ ایک شہزادہ معظم جاہ کے کاسہ لیسوں کی۔ دوسری نسیم بانو کے ہمدردوں کی، بہت دیر تک کیچڑ اچھالی گئی، اس کے بعد یہ معاملہ خاموش ہوگیا۔ میں اب فلمی دنیا میں داخل ہو چکا تھا۔ کچھ دیر’’منشی‘‘ کی حیثیت سے امپریل فلم کمپنی میں کام کیا۔ یعنی ڈائرکٹروں کے حکم کے مطابق الٹی سیدھی زبان میں فلموں کے مکالمےلکھتا رہا، ساٹھ روپے ماہوار پر، ترقی کی تو ہندوستان سنے ٹون میں سیٹھ نانو بھائی ڈیسائی کے یہاں سوروپے ماہوار پر ملازم ہوگیا۔ یہاں میں نے اپنی پہلی فلمی کہانی’’مڈ‘‘ کے عنوان سے لکھی۔ اس کا عرف ’’اپنی نگریا‘‘ تھا۔ کہنا یہ ہے کہ فلمی حلقے اب میرے نام سے واقف ہو چکے تھے۔
۔ اس کی آمد پر کافی شور مچا۔ بڑی پوسٹر بازی ہوئی۔ دو پارٹیاں بن گئی تھیں۔ ایک شہزادہ معظم جاہ کے کاسہ لیسوں کی۔ دوسری نسیم بانو کے ہمدردوں کی، بہت دیر تک کیچڑ اچھالی گئی، اس کے بعد یہ معاملہ خاموش ہوگیا۔ میں اب فلمی دنیا میں داخل ہو چکا تھا۔ کچھ دیر’’منشی‘‘ کی حیثیت سے امپریل فلم کمپنی میں کام کیا۔ یعنی ڈائرکٹروں کے حکم کے مطابق الٹی سیدھی زبان میں فلموں کے مکالمےلکھتا رہا، ساٹھ روپے ماہوار پر، ترقی کی تو ہندوستان سنے ٹون میں سیٹھ نانو بھائی ڈیسائی کے یہاں سوروپے ماہوار پر ملازم ہوگیا۔ یہاں میں نے اپنی پہلی فلمی کہانی’’مڈ‘‘ کے عنوان سے لکھی۔ اس کا عرف ’’اپنی نگریا‘‘ تھا۔ کہنا یہ ہے کہ فلمی حلقے اب میرے نام سے واقف ہو چکے تھے۔ اس دوران میں ایک اعلان نظروں سے گزرا کہ کوئی صاحب احسان ہیں۔ انہوں نے ایک فلم کمپنی تاج محل پکچرز کے نام سے قائم کی ہے۔ پہلا فلم ’’اجالا‘‘ ہوگا جس کی ہیروئن پری چہرہ نسیم بانو ہے۔ اس فلم کے بنانے والوں میں دو مشہورہستیاں تھیں۔ ’’پکار‘‘ کا مصنف کمال امروہی اور پکار ہی کا پبلسٹی منیجر ایم اے مغنی۔ فلم کی تیاری کے دوران میں کئی جھگڑے کھڑے ہوئے۔ امیر حیدر کمال امروہی اور ایم اے مغنی کی کئی بار آپس میں چخ ہوئی۔ یہ دونوں حضرات غالباً عدالت تک بھی پہنچے۔ مگر ’’اجالا‘‘ انجام کار مکمل ہو ہی گیا۔
۔ اس کی آمد پر کافی شور مچا۔ بڑی پوسٹر بازی ہوئی۔ دو پارٹیاں بن گئی تھیں۔ ایک شہزادہ معظم جاہ کے کاسہ لیسوں کی۔ دوسری نسیم بانو کے ہمدردوں کی، بہت دیر تک کیچڑ اچھالی گئی، اس کے بعد یہ معاملہ خاموش ہوگیا۔ میں اب فلمی دنیا میں داخل ہو چکا تھا۔ کچھ دیر’’منشی‘‘ کی حیثیت سے امپریل فلم کمپنی میں کام کیا۔ یعنی ڈائرکٹروں کے حکم کے مطابق الٹی سیدھی زبان میں فلموں کے مکالمےلکھتا رہا، ساٹھ روپے ماہوار پر، ترقی کی تو ہندوستان سنے ٹون میں سیٹھ نانو بھائی ڈیسائی کے یہاں سوروپے ماہوار پر ملازم ہوگیا۔ یہاں میں نے اپنی پہلی فلمی کہانی’’مڈ‘‘ کے عنوان سے لکھی۔ اس کا عرف ’’اپنی نگریا‘‘ تھا۔ کہنا یہ ہے کہ فلمی حلقے اب میرے نام سے واقف ہو چکے تھے۔ اس دوران میں ایک اعلان نظروں سے گزرا کہ کوئی صاحب احسان ہیں۔ انہوں نے ایک فلم کمپنی تاج محل پکچرز کے نام سے قائم کی ہے۔ پہلا فلم ’’اجالا‘‘ ہوگا جس کی ہیروئن پری چہرہ نسیم بانو ہے۔ اس فلم کے بنانے والوں میں دو مشہورہستیاں تھیں۔ ’’پکار‘‘ کا مصنف کمال امروہی اور پکار ہی کا پبلسٹی منیجر ایم اے مغنی۔ فلم کی تیاری کے دوران میں کئی جھگڑے کھڑے ہوئے۔ امیر حیدر کمال امروہی اور ایم اے مغنی کی کئی بار آپس میں چخ ہوئی۔ یہ دونوں حضرات غالباً عدالت تک بھی پہنچے۔ مگر ’’اجالا‘‘ انجام کار مکمل ہو ہی گیا۔ کہانی معمولی تھی، موسیقی کمزور تھی، ڈائرکشن میں کوئی دم نہیں تھا۔ چنانچہ یہ فلم کامیاب نہ ہوا اور احسان صاحب کو کافی خسارہ اٹھانا پڑا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کو اپنا کاروبار بند کرنا پڑامگر اس کاروبار میں وہ اپنا دل نسیم بانو کو دے بیٹھے۔ احسان صاحب کے لیے نسیم اجنبی نہیں تھی۔ ان کے والد خان بہادرمحمد سلمان چیف انجینئر نسیم کی والدہ عرف چھمیاں کے پرستار تھے بلکہ یوں کہئے کہ ایک لحاظ سے وہ ان کی دوسری بیوی تھی۔ احسان صاحب کو یقیناً نسیم سے ملنے کا اتفاق ہوا ہوگا۔ فلم کی تیاری کے دوران میں تو خیروہ نسیم کے بالک
khana puri kijiye
Explanation:
HOPE IT HELPS U
PLS MARK ME AS BRAINLIEST ❤️☺️☺️