Social Sciences, asked by awan62636, 6 hours ago

Sr. N
Question
دور حاضر میں پاکستان کے نمایاں جرائد و رسائل کا احوال بیان کریں۔​

Answers

Answered by harjeetsingh19801981
0

Muje apki lanhuege samaj nahi ati nahi to mai apki help jarur karti.soory ...

Answered by Meharirfan786
1

Answer:

ادب کی ترویج و اشاعت میں جو کردار رسائل کا رہا ہے وہ کتاب کلچر یا دیگر ادبی سرگرمیوں سے کہیں بڑھ کے ہے۔خوش قسمتی سے اُردو میں بہت سے اہم جرائد و رسائل اس اہم ذمہ داری کو نبھاتے رہے ہیں۔ رسائل کلچر اصل میں انگریزعہد میں آیا جب ادب کو ایک سماجی حقیقت کے طور پر دیکھا جانے لگا۔ پریس نے برصغیر میں ایک نئی تخلیقی دنیا کا دروازہ کھول دیا۔ اخبارات اور کتابوں کی اشاعت نے ہماری سماجی اور تخلیقی زندگی پر بہت سے اثرات ڈالے۔ ادب بھی ان اثرات سے بہرہ مند ہونے لگا۔ نِت نئے رسائل جاری ہونے لگے۔ بیسویں صدی میں خصوصاً اس اہم شعبے کی طرف ادیبوں نے توجہ دی۔سرسید نے ’’تہذیب اخلاق‘‘ نکالا۔ جو ادبی رسالہ تو نہ تھا مگر ادب پر گہرے اثرات مرتب کرتا گیا۔ ’’تہذیب اخلاق ‘‘کے رد عمل میں ایک بہت اہم رسالہ ’’تیرہویں صدی‘‘ بھی ہے جو میر ناصر علی خان دہلوی نے ۱۸۷۶ء کو جاری کیا۔ یہ اہم رسالہ رومانوی فکر کا نمائندہ تھا جو سرسید کی عقل پرستی کے رد میں جاری ہوا۔ چار پانچ سال کے بعد یہ بند ہو گیا پھر میر ناصر علی دہلوی نے نام تبدیل کر کے ’’صلائے عام‘‘ کے نام سے ایک اور رسالہ نکالا جو ۱۹۰۸ ء سے ۱۹۳۲ء تک جاری رہا۔ اس رسالے کی تنقیدی اور فکری سرمایے پر ابھی نظر نہیں پڑی۔ جامعات کو اس پر پوری توجہ دینی چاہیے اور میر ناصر علی دہلوی کی ادبی خدمات پر کام کروانا چاہیے۔ صلائے عام میں اُس وقت کے تناظرات کو پہچاننے میں مشکل پیش نہیں آتی۔ وہ عقل پرستی کے خلاف ایک جہاد کی طرح کام کرتے رہے۔ بہت کم لوگوں کو پتا ہے کہ اُردو میں رومانوی تحریک کے پس منظر میں میر ناصر علی کا نام اور کام ایک تحریک کی طرح تھا۔اسی عہد میں ’’مخزن‘‘ کا کام اور ادبی خدمات نمایاں ہیں جسے سر عبد القادر نکالتے تھے۔ ’’مخزن‘‘ میں خصوصاً جدید شاعری کو زیادہ موضوع بنایا گیا۔ یہ بھی رومانوی تحریک کا نمائندہ رسالہ بن کر سامنے آیا۔ آگے چل کر ’’ساقی‘‘ اور’’ ادبی دنیا‘‘ کی اہمیت کا کون انکار کر سکتا ہے۔ادبی دنیا کو میرا جی اور ساقی کو شاہد احمد دہلوی نے اپنے اعلیٰ ادبی ذوق سے اعلیٰ ادب کا مرکز بنا دیا۔ان دو جریدوں نے مجموعی طور پر ادب کی شکل نکھارنے میں ایک قدم بڑھ کے کام کیا۔ یہی وہ دور تھا جب اُردو میں تخلیقی ادب اپنی جون بدل رہا تھا۔ نئے نئے سوالات نئی اصناف کے ساتھ مرکز گفتگو بن رہے تھے۔ ساقی میں حسن عسکری نے باقاعدہ ’’جھلکیاں‘‘ کے عنوان سے کالم لکھنے کا آغاز کیا جس میں ادب میں اٹھنے والے نئے سوالات کو اپنا موضوع بنایا جاتا۔اسی دور میں محمد طفیل کا ’’نقوش‘‘، وزیر آغا کا ’’اوراق‘‘ اور احمد ندیم قاسمی کا ’’فنون‘‘ بھی جاری ہوئے جنھوں نے ایک عہد کی تعمیر کی۔ محمد طفیل نے تقریباً تمام اصناف کو اپنا موضوع بنایا۔ نقوش کے رسول نمبر، افسانہ نمبر، آپ بیتی نمبر، خطوط نمبر وغیرہ اہم شمارے تھے۔ہمارا عہد اگرچہ ’’اوراق‘‘ اور فنون‘‘ کے عہد سے آگے آ چکا ہے مگر ہمیں ابھی تک ’’اوراق‘‘ اور ’’فنون‘‘ کے تربیت یافتہ ادیبوں کی رہنمائی میسر ہے اور ہمارے عہد کی تعمیری و تخلیقی شناخت انھی رسائل کے تربیت یافتہ افراد سے متعین ہوتی نظر آتی ہے۔ ’’اوراق‘‘ کا قد اس لیے زیادہ برا ہے کہ اس میںنئی تنقیدی مباحث اورجدید نظم کو زیادہ اہمیت دی گئی۔ حتیٰ کہ ’’سوال یہ ہے‘‘ کے عنوان سے باقاعدہ ایک سلسلہ شروع کیا گیا جس میں جید لکھاری حصہ لیتے جو ادب کے ہم عصر مسائل کے مختلف تناظرات کو سمیٹنے کی اہلیت رکھتا۔ ’’فنون‘‘ غزل کی ترویج کا باعث بنا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اُردو کو اعلیٰ طرز کے غزل گو ’’فنون‘‘ نے ہی فراہم کیے۔

 

پچھلی کچھ ایک دو دہائیوں سے اُردو میں جرائد کا اسلوبیاتی انداز بھی بدلا ہے اور پیش کش کے لیے مواد کی ترجیحات میں واضح فرق بھی آیاہے۔ آج کے ادبی جرائد، ادب کو موضوع بناتے ہوئے اپنے تناظرات کو سمجھنے کی کوشش بھی کر رہے ہیں اور کسی حد تک سمت نمائی بھی۔میں اگرپچھلی ڈیڑھ دہائی میں سامنے آنے والے چند رسالوں کا نام لوں تو اُن میں کراچی سے شائع ہونے رسائل میں دنیا زاد (آصف فرخی)، آج (اجمل کمال)، مکالمہ (مبین مرزا)، ارتقا (محمد علی صدیقی)، اسالیب (عنبرین عنبر)، اجرا (احسن سلیم) اپنی وضع اور مباحث میں منفرد اور کچھ ہٹ کے پیش کرنے والے رسائل ہیں۔ راولپنڈی سے سمبل (علی محمد فرشی)، تسطیر (نصیر احمد ناصر) اور ادبیات (محمد عاصم بٹ، اختررضا سلیمی) نمایاں اور اپنی شناخت بنانے والے جرائد ہیں۔ کہانی اور کہانی کار کو سمجھنے کی طرف ایک اچھی جہت ’’کہانی کار‘‘ (احمد اعجاز) اور ’’کہانی گھر‘‘ (زاہد حسن) میں بھی نظر آتی ہے۔

سے ایک ادبی مجلہ باقاعدگی سے نکال رہے ہیں۔

Explanation:

Similar questions