الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماریء دل نے آخر کام تمام کیا
tashreeh
Answers
Explanation:یہ لکیریں میر تکی میر کی تحریر کردہ غزلوں کے ذریعہ لی گئیں ہیں
مندرجہ بالا شعر میں شاعر نے عجیب بے کسی کے ساتھ اپنی داستانِ حیات کو بیان کیا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ ہم کو ایک نہایت سنگین مرض لاحق ہو گیا۔ زندگی گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ مرض بڑھتا گیا اور اس کی آثار ظاہر ہونے لگے۔ ہم نے اس مرض کے علاج کے لئے طرح طرح کی تدبیریں کی اور مختلف دواﺅں سے علاج کیا‘ ہر طرح سے جتن کر ڈالے۔ لیکن عشق کوئی ایسا مرض نہیں ہے کہ اس کا علاج ہو جائے۔ جوں جوں ہم اس کا علاج کرتے رہے اس کی سنگینی بڑھتی گئی‘ دوائیں بے اثر ہو گئیں اور تمام تدبیریں الٹی ہو گئیں۔ پھر وہ وقت آ گیا کہ یہ بیماری نا قابلِ برداشت ہو گئی اور اس کی وجہ سے ہم موت کے دہانے پر پہنچ گئے۔ اس روگ نے ہم سے ہماری زندگی چھین لی اور مرضِ دل کی بدولت ہم اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ مصرعہ ثانی میں لفظ ’دیکھا‘ ایک ڈرامائی کیفیت پیدا کر رہا ہے۔ اس سے پتا لگتا ہے شاعر کو یہ اندیشہ پہلے ہی سے تھا۔ وہ اس اندیشہِ جان کا ذکرمحبوب سے پہلے بھی کر چکے تھے۔ اب یقین کے ساتھ محبوب کو جتاتے ہیں کہ دیکھا ! اس بیماریِ دل نے آخر کام تمام کیا