the up is the passage n
down is question pls help.
Answers
Answer:
hii I am Muskan folw me
Explanation:
*ایک امام صاحب کی درد بھری کہانی انہیں کی زبانی ملاحظہ فرمائیں*۔۔۔۔آج دیر شب ضلع گورکھپور کے گلہریا تھانہ حلقہ میں واقع ایک مسجد کے امام صاحب سے میری ملاقات ہوگئ،موصوف گزشتہ 9سال سے وہاں امامت اور طلبہ کی ابتدائی دینی تعلیم دینے کا فریضہ انجام دے رہے ہیں،بلکہ آس پاس کے دیہی مواضعات میں بھی حسب ضرورت دینی کام کے سلسلے میں آتے جاتے رہتے ہیں۔شروع میں ان کی تنخواہ گاؤں والوں نے3000روپئے متعین کی تھی، 9سال بعد ان کی تنخواہ 23سو روپے ہوگئی،جی،ہاں تئیس سو روپے، اسے 23ہزار نہ پڑھئیے گا،ہر سال ان کی رمضان شریف کی پوری تنخواہ غائب کردی جاتی ہے۔۔اسی پر بس نہیں،مذکورہ23سو روپے تنخواہ امام صاحب کو سب کے دروازہ پر جاکر خود ہی وصولی کرنی پڑتی ہے،ایسا بھی نہیں ہے کہ امام صاحب باصلاحیت نہیں ہیں،بلکہ حقیقت یہ ہے کہ موصوف آج بھی جماعت خامسہ تک کی کتابیں آسانی سے پڑھا سکتے ہیں،وہ ایک اچھے خطیب اور بہترین ادیب بھی ہیں،عصری علوم کے اعتبار سے ٹی،ای،ٹی پاس کر چکے ہیں،مدرسہ تعلیمی بورڈ سے ڈبل فاضل اور ایک مرکزی ادارہ سے فضیلت تک باضابطہ سند یافتہ ہیں،امام صاحب،نے بتایا کہ وہ، سرکاری ملازمت کے لئے نصف درجن مدارس اور دارلعلوم میں تدریسی خدمات انجام دے چکے ہیں،انہیں غریب جان کر دنیا دار نظما گرانٹ آنے سے قبل ہی باہر کا راستہ دکھا دیتے تھے۔امام صاحب نے تھک ہار کر اس مسجد کی باگ ڈور سنبھال لیا اور کہا کہ اب کہیں نہیں جانا ہے یہیں خدمات انجام دیں گے۔آگے اللہ حافظ۔۔واضح رہے، امام صاحب کثیرالاعیال ہیں، یعنی ان کی 6بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے،گھر میں بیوی اور ضعیف ماں بھی ہیں،ہرایک کی ذمے داری انہیں کے سر ہے،انہوں نے کبھی تنخواہ کے لئے گاؤں والوں سے کوئ شکوہ نہیں کیا۔کئ بار سوکھی روٹی اور باسی چاول کھا کر گزارہ کرنا پڑا ہے۔ہر حال میں ہنستے مسکراتے دین کا کام سمجھ کر شب و روز محنت کر رہے ہیں،کبھی بھی ناشکری نہیں کی،اللہ کے فضل سےہم لوگوں کی اچھی خاصی تنخواہ ہے، پھر بھی سال میں کبھی انکریمنٹ لگنے میں تاخیر ہوتی ہے تو متفکر اور پریشان نظر آتے ہیں،مذکورہ امام صاحب کی تنخواہ پر 9سال میں گاؤں والوں نے اس قدر انکریمنٹ لگایا کہ ان کی تنخواہ گھٹ کر 3000سے 2300 روپےہوگئ،پھر بھی وہ اسی میں رب کا شکر ادا کر رہے ہیں۔میں ان کی آپ بیتی اور درد بھری داستان سن کر حیران رہ گیا،ا ن کی بات پریقین نہیں کرپارہا تھا،لیکن جب تنخواہ رجسٹر کا معائنہ کیا تو دل روپڑا،،،افسوس صد افسوس پورا گاؤں مل کر اپنے ایک امام کی مختصر تنخواہ کا انتظام نہیں کر پا رہا ہے۔۔مذکورہ گاؤں اور وہاں کی اہم شخصیات کے اسمائے گرامی پر میں نے اس لئے سیاہی لگا دی ہے تاکہ سب کے سامنے انہیں ذلیل اور رسوا نہ ہوناپڑے،،،آج دیکھا جاتا ہے کہ منریگا مزدور ی کرنے والے آرام سے اپنے گھروں میں رہ کر معمولی کام کر کے دس بارہ ہزار ماہانہ کما لیتے ہیں،افسوس جو امام شروع سے آخر تک ہر موڑ پر ہمارے کام آتا ہے، اس کے ساتھ اس قدر زیادتی اور ناانصافی کہ،،،اللہ کی پناہ۔۔۔یاد رہے،اگر ہم نے اپنے رویے میں تبدیلی نہیں لائی تو پھر مصلی امامت سنبھالنا تو دور نماز جنازہ پڑھانے والا بھی کوئی نہیں ملے گا،اور پھر وہی پانچ دہائ قبل والی کہانی دہرائی جانے لگے گی،،،مجھے یاد ہے،،ایک مرحوم بزرگ نے تقریباً 25سال قبل بتایا تھا کہ، پہلے بہت تلاش کرنے کے بعد جب کوئی شخص جنازہ پڑھانے والا نہیں ملتا تو لوگ بغیر جنازہ پڑھے اپنے مرحومین کو دفن کر دیتے تھے،نشانی کے طور پر مرحومہ یا مرحوم کی قبر پر ایک لکڑی گاڑ دی جاتی تھی، دوچار ماہ بعد اگر کوئی پڑھا لکھا شخص ادھر سے گذرتا تو قبر پر لکڑی کا نشان دیکھ کر سمجھ جاتا کہ اس مردے کی نماز جنازہ ابھی تک ادا نہیں کی گئی ہے،اور پھر وہ شخص نماز جنازہ پڑھ کر قبر پر گاڑی گئ لکڑی ہٹا دیتا۔۔میرے عزیز،ابھی بھی وقت ہے،اپنے امام کی قدر کریں،آپ اندازہ لگائیں کہ اس مہنگا ئ کے دور میں پچیس پچاس ہزار تنخواہ پانے والوں کا کام، جب ٹھیک ڈھنگ سے نہیں چل پارہا ہے تو پھر دوچار ہزار پانے والے امام کا کام کیسے چلتا ہوگا؟اس کے بھی تو بال بچے دوست احباب اور رشتے دار ہوتے ہیں۔۔۔۔نورالہدی مصباحی گو
رکھپور ی رکن مجلسِ شوریٰ جامعہ اشرفیہ مبارک پور