Hindi, asked by huriasiddique08, 4 months ago

اتفاق میں برکت ہے کہانی لکھیے...​

Answers

Answered by Khadijah21
12

اتفاق میں برکت ہے کہانی لکھیے

جو خاندان ہمیشہ راضی ہوتے ہیں وہ سب سے نمایاں ہوتے ہیں۔ اس شہر میں اس کا نام اس ملک میں کافی مشہور ہے۔ کیونکہ اتفاق ایک نعمت ہے۔ اسی طرح اگر کاروبار بھی موقع سے کم ہوجاتا ہے۔ اور اگر تمام شیر متفق ہیں ، یہ کاروبار مبارک ہے۔ ناکامی ایک اتفاق ہے۔ گھروں کے حالات جو اتفاق نہیں کرتے ہیں دن بدن خراب ہوتے جارہے ہیں۔ انہیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور وہ کاروبار جو نہیں کرتے ہیں متفق بھی پریشان ہیں۔ ان کا کاروبار کبھی بڑھ نہیں سکتا۔ میرا مطلب ہے ہمیشہ راضی ہوں۔ اتفاقی طور پر آپ کی زندگی آسانی اور خوشی کے ساتھ گزر جائے گی۔

خدیجہ 21

Answered by shifarahman2008
1

Answer:

اتفاق میں برکت

ایک بڑے میاں کی زندگی کے آخری لمحات کی کہانی انھیں

اپنے بیٹوں کو سبق سکھانے کی بہت جلدی تھی

ابن انشا ء سے بہتر منظر کشی بھلا کون کر سکتا ہے

ابن انشاء

ایک بڑے میاں جنھوں نے اپنی زندگی میں بہت کچھ کمایا بنایا تھا آخر بیمار ہوئے، مرض الموت میں گرفتار ہوئے۔ ان کو اور تو کچھ نہیں، کوئی فکر تھی تو یہ کہ ان کے پانچوں بیٹوں کی آپس میں نہیں بنتی تھی۔ گاڑھی کیا پتلی بھی نہیں چھنتی تھی۔ لڑتے رہتے تھے۔ کبھی کسی بات پر اتفاق نہ ہوتا تھا حالانکہ اتفاق میں بڑی برکت ہے۔ آخر انھوں نے بیٹوں پر اتحاد اور اتفاق کی خوبیاں واضح کرنے کے لیے ایک ترکیب سوچی۔ اُن کو اپنے پاس بلایا اور کہا: دیکھو اب میں کوئی دم کا مہمان ہوں۔ سب جا کرایک ایک لکڑی لائو۔

ایک نے کہا: لکڑی؟ آپ لکڑیوں کا کیا کریں گے؟ دوسرے نے آہستہ سے کہا۔ بڑے میاں کا دماغ خراب ہو رہا ہے۔ لکڑی نہیں۔ شاید ککڑی کہہ رہے ہیں۔ ککڑی کھانے کو جی چاہتا ہوگا۔ تیسرے نے کہا۔ نہیں کچھ سردی ہے شاید آگ جلانے کو لکڑیاں منگاتے ہوں گے۔ چوتھے نے کہا، بابوجی کوئلے لائیں؟

پانچویں نے کہا نہیں اُپلے لاتا ہوں۔ وہ زیادہ اچھے رہیں گے۔

باپ نے کراہتے ہوئے کہا: ’’ارے نالائقو۔ میں جو کہتا ہوں وہ کرو۔ کہیں سے لکڑیاں لائو جنگل سے۔‘‘

ایک بیٹے نے کہا: یہ بھی اچھی رہی۔ جنگل یہاں کہاں؟ اور محکمہ جنگلات والے لکڑی کہاں کاٹنے دیتے ہیں۔

دوسرے نے کہا: اپنے آپے میں نہیں ہیں، باپو جی۔ بک رہے ہیں جنوں میں کیا کیا کچھ۔

تیسرے نے کہا: بھئی لکڑیوں والی بات اپن کی تو سمجھ میں نہیں آئی۔

چوتھے نے کہا: بڑے میاں نے عمر بھر میں ایک ہی تو خواہش کی ہے اُسے پورا کرنے میں کیا ہرج ہے؟

پانچویں نے کہا: اچھا میں جاتا ہوں۔ ٹال پر سے لکڑیاں لاتا ہوں۔

چناںچہ وہ ٹال پر گیا۔ ٹال والے سے کہا: خان صاحب ذرا پانچ لکڑیاں تو دینا۔ اچھی مضبوط ہوں۔

ٹال والے نے لکڑیاں دیں۔ ہر ایک خاصی موٹی اور مضبوط۔ باپ نے دیکھا، تو اس کا دل بیٹھ گیا۔ یہ بتانا بھی خلاف مصلحت تھا کہ لکڑیاں کیوں منگائی ہیں اور اس سے کیا اخلاقی نتیجہ نکالنا مقصود ہے۔ آخر بیٹوں سے کہا: اب ان لکڑیوں کا گٹھا باندھ دو۔

اب بیٹوں میں پھر چہ میگوئیاں ہوئیں، گٹھا؟ وہ کیوں؟ اب رسی کہاں سے لائیں بھئی بہت تنگ کیا اس بڈھے نے، آخر ایک نے اپنے پاجامے میں ازار بند نکالا اور گٹھا باندھا۔

بڑے میاں نے کہا: ’’اب اس گٹھے کو توڑو۔‘‘

بیٹوں نے کہا: ’’لو بھئی یہ بھی اچھی رہی۔ کیسے توڑیں۔ کلھاڑا کہاں سے لائیں۔

باپ نے کہا: ’’ کلھاڑے سے نہیں۔ ہاتھوں سے توڑو گھٹنے سے توڑو۔‘‘

حکم والد مرگ مفاجات۔ پہلے ایک نے کوشش کی۔ پھر دوسرے نے پھر تیسرے نے۔ پھر چوتھے نے۔ پھر پانچویں نے۔ لکڑیوں کا بال بیکا نہ ہوا۔ سب نے کہا ’’بائو جی ہم سے نہیں ٹوٹتا یہ لکڑیوں کا گٹھا۔‘‘

باپ نے کہا ’’اچھا۔ اب ان لکڑیوں کو الگ الگ کر دو۔ ان کی رسی کھول دو۔‘‘

ایک نے جل کر کہا ’’ رسی کہاں ہے؟ میرااِ زار بند ہے۔ اگر آپ کو کھلوانا تھا تو گٹھا بندھوایا ہی کیوں تھا۔ لائو بھئی کوئی پنسل دینا میں اِزار بند ڈال لوں پاجامے میں۔‘‘

باپ نے بزرگانہ شفقت سے اس کی بات کو نظرانداز کرتے ہوئے کہا: ’’اچھا اب ان لکڑیوں کو ایک ایک کرکے توڑو۔‘‘

لکڑیاں چونکہ موٹی موٹی اور مضبوط تھیں۔ بہت کوشش کی۔ کسی سے نہ ٹوٹیں۔ آخر میں بڑے بھائی کی باری تھی۔ اس نے ایک لکڑی پر گھٹنے کا پورا زور ڈالا اور تڑاق کی آواز آئی۔

باپ نے نصیحت کرنے کے لیے آنکھیں یک دم کھول دیں۔ کیا دیکھتا ہے کہ بیٹا بے ہوش پڑا ہے۔ لکڑی سلامت پڑی ہے۔ آواز بیٹے کے گھٹنے کی ہڈی ٹوٹنے کی تھی۔

ایک لڑکے نے کہا: ’’یہ بڈھا بہت جاہل ہے۔‘‘

دوسرے نے کہا: ’’اڑیل، ضدی۔‘‘

تیسرے نے کہا: ’’کھوسٹ، سنکی۔ عقل سے پیدل، گھامڑ۔‘‘

چوتھے نے کہا: ’’سارے بڈھے ایسے ہی ہوتے ہیں، کم بخت مرتا بھی نہیں۔‘‘

بڈھے نے اطمینان کا سانس لیا کہ بیٹوں میں کم ازکم ایک بات پر تو اتفاق رائے ہوا۔ اس کے بعد آنکھیں بند کیں اور نہایت سکون سے جان دے دی۔(اُردو کی آخری کتاب)

Similar questions