بیسویں صدی میں مسئلہ فلسطین کی جڑیں یہودی آباد کاری میں مخفی ہیں۔ موجودہ دور میں غزہ کی سیاسی صورت
حال کے بارے میں تنقیدی مضمون لکھیں۔
Answers
Answer:
فلسطین کی موجودہ صورتحال ۔
Explanation:
وری دنیا کورونا وبا سے نبرد آزما ہے، لاکھوں قیمتی جانیں اس وبا کی نذر ہو چکی ہیں اور پوری دنیا میں ایک عجیب سی بے چینی کا عالم ہے۔ اس خوف اور غم کے ماحول کے بیچ فلسطین اور اسرائیل سے بمباری اور راکٹ حملوں کی خبر موصول ہو رہی ہیں۔ تازہ اطلاعات کے مطابق اسرائیل کے شہر لد میں ایمرجنسی یعنی ہنگامی صورتحال کا اعلان کر دیا گیا ہے کیونکہ وہاں پر عرب شہریوں اور اسرائیلی فوجیوں کے مابین جھڑپوں نے شدت اختیار کر لی ہے۔
تازہ اطلاعات کے مطابق اسرائیل کے شہر لد میں مظاہرین نے گاڑیوں کو نذر آتش کر دیا ہے اور ان پرتشدد جھڑپوں میں کم از کم 12 افراد کے زخمی ہونے کی خبر ہے۔ لد شہرکے میئر نے ان حالات کی تشبیہ خانہ جنگی سے کی ہے۔
اسرائیلی حملوں میں غزہ میں واقع 13 منزلہ عمارت جس میں حماس کا سیاسی دفتر تھا وہ زمیں بوس ہو گیا ہے اور ان حملوں میں 28 سے زیادہ فلسطینیوں کے ہلاک ہونے کی خبر ہے جن میں دس بچے بھی شامل ہیں۔ اسرئیل کی جارحیت کا جواب دیتے ہوئے حماس نے اسرائیل کی راجدھانی تل ابیب پر راکٹوں سے حملے کئے جس میں دو اسرائیلی شہری ہلاک ہو گئے۔ حماس کی جانب سے پیر کی شب سے خبریں موصول ہونے تک اسرائیلی علاقوں پر 400 سے زیادہ راکٹ پھینکے گئے ہیں۔ اسرائیلی حملوں میں 150 سے زیادہ فلسطینی زخمی بھی ہوئے ہیں۔
یہ تازہ ترین جھڑپیں بیت المقدس میں تناؤ کی وجہ سے پیش آئیں۔ قدیم شہر کے مقدس مقامات نہ صرف قومی بلکہ مذہبی علامتیں ہیں۔ اور ہر وہ بحران جو انھیں متاثر کرتا ہے وہ اکثر تشدد میں تبدیل ہو جاتا ہے۔اس مرتبہ معاملہ اسرائیل کی جانب سے رمضان کے مہینے میں بھاری پولیس کی نفری کی تعیناتی اور اسرائیلی عدالتوں کے ذریعے فلسطینیوں کو اُن کے گھروں سے بے دخل کرنے کے متازع اقدامات ہیں۔
رمضان کے آغاز کے ساتھ ہی دمشق گیٹ کے باہر کھڑی کی جانے والی سیکورٹی رکاوٹوں کے خلاف مظاہرہ کرنے والے فلسطینیوں اور پولیس کے درمیان رات کے وقت جھڑپیں ہونے لگیں کیونکہ ان رکاوٹوں کی وجہ سے وہ شام کے وقت وہاں یکجا نہیں ہو پا رہے تھے۔
اسرائیلی پولیس کا کہنا ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں فلسطینیوں نے رات عمارت میں گزاری تھی اور اگلے دن یعنی پیر کے دن دس مئی کو ’یوم یروشلم مارچ‘ کے موقع پر ہونے والی متوقع جھڑپ کے باعث خود کو اینٹوں، پتھروں اور پیٹرول بموں سے لیس کر لیا تھا، جو کہ مقامی وقت کے مطابق شام چار بجے شروع ہونا تھی۔ واضح رہے کہ حالات کوبگڑتا دیکھ ’یوم یروشلم مارچ‘ منسوخ کر دی گئی تھی۔ اشتعال کی ایک بڑی وجہ انٹرنیٹ پر شائع ہونے والی ویڈیو بھی ہے جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پولیس کی جانب سے پھینکے گئے گرینیڈز مسجد الاقصی کے اندر گرے۔
اس ہنگامہ میں شہید ہوئے ایک شخص کے جنازے میں شریک اسرائیل میں مقیم عرب شہریوں نے اسرائیل کے شہر لد میں زبردست مظاہرہ کیا۔ مظاہرین نے پولیس پر پتھراؤ کیا جس کا جواب دستی بموں سے دیا گیا۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ حماس نے کئی سالوں میں پہلی مرتبہ یروشلم پر راکٹ فائر کر کے ’’سرخ لکیر عبور کر لی ہے اور یہ تنازع کچھ عرصے تک جاری رہ سکتا ہے۔‘‘ حماس کو مخاطب کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ 'اس پر یعنی حماس پر ایسے حملے کیے جائیں گے جن کی انھیں توقع بھی نہیں ہو گی۔'
مبصرین کی رائے میں موجودہ کشیدگی کی وجہ اسرائیل میں سیاسی عدم استحکام ہے کیونکہ بنیامن نیتن یاہو کی لیکود پارٹی کی حکومت سازی میں ناکامی سے ملک میں اندرونی سیاسی تعطل طول پکڑ گیا ہے اور اب دو برسوں میں پانچویں مرتبہ عام انتخابات ہونے کے امکان ہیں۔
مبصرین کی رائے میں نیتن یاہو کی حکومت مسلمانوں پر سختیاں کر کے سیاسی فائدہ حاصل کرنا چاہتی ہے اور اپنے سیاسی حریف کوبیک فٹ پر لانا چاہتی ہے تاکہ اگر ملک میں پانچویں مرتبہ عام انتخاب ہوتے ہیں تو انھیں اکثریت حاصل ہو سکے۔
واضح رہے کہ اسرائیل میں گزشتہ دو سالوں کے دوران چار مرتبہ عام انتخابات ہو چکے ہیں لیکن ان انتخابات میں کسی بھی سیاسی پارٹی کو واضح اکثریت نہیں ملی ہے اور نہ ہی کوئی ایسا اتحاد بن سکا جو پائیدار حکومت دے سکے۔
گزشتہ عام انتخابات کے بعد اسرائیل کے صدر نے اسرائیل کے موجودہ وزیر اعظم اور 30 نشستیں حاصل کرنے والی لیکود پارٹی کے سربراہ نیتن یاہو کو حکومت سازی کے لیے اسرائیلی آئین کے تحت 28 دن کی مہلت دی تھی جس دوران وہ مطلوبہ ارکان کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ واضح رہے گزشتہ بدھ کو اس مدت کے ختم ہونے کے بعد حزب اختلاف کی جماعت کے سربراہ آئر لپد کو 28 دن کا وقت دیا گیا ہے تاکہ وہ اپنی کوشش کر کے دیکھ لیں۔
ان کی ناکامی کی صورت میں آئین کے مطابق پارلیمان کو 21 دن کا وقت ملے گا کہ اس کا کوئی رکن 61 ارکان کی حمایت ثابت کر دے بصورت دیگر ملک میں ایک مرتبہ پھر 90 دن کے اندر انتخابات منعقد کروانے پڑیں گے۔
اسرائیل کے سیاسی میدان میں عرب فلسطینیوں کے دو سیاسی دھڑے یونائٹیڈ عرب لسٹ اور جوائنٹ عرب لسٹ کا کردار بھی کافی اہم ہے کیونکہ گزشتہ انتخابات میں دونوں کو مجموعی طور پر دس نشستیں حاصل ہوئی تھیں۔
اگر یہ جھڑپیں اور بمباری سیاسی اقتدار حاصل کرنے کے لئے ہو رہے ہیں تو کورونا وبا کے اس دور میں یہ انتہائی شرمناک ہے۔ اس سارے معاملہ پر عالمی برادری کی جانب سے اسرائیل اور فلسطینی تنظیم حماس سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیلیں کی گئی ہیں