(الف) ۴۵ام سے ۴۵اح سے پہلے مسلمانوں کا طر تسلیم کیا تھا؟ ب) مسلمانوں کے طرز تعلیم کے دوسرے دور پر روشنی ڈالیں ۔ ج) مسلمانوں کے تیسرے اور تعلیم میں کیا خرابیاں پیدا ہوئیں؟ و مسلمانوں کی تعلیم و تدریس کے مراکز کون کون سے تھے؟ (0) تعلیم کے لیے جداگانہ قانون کسی زمانے میں بنایا گیا؟
Answers
Answer:
دینی مدارس کے طلبہ کو عصری مضامین پڑھانے کیلئے تو خوب کوشش کی گئی لیکن جدید تعلیمی اداروں میں دینی تعلیم کی کمی کو پورا کرنا بھی مطلوب ہے
ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی۔نئی دہلی
موجودہ دور میں مسلمانوں کے درمیان تعلیم کے دو دھارے جاری ہیں۔ ایک کو قدیم یا دینی کہا جاتا ہے اور دوسرے کو جدید یا عصری۔یہ دونوں دھار ے متوازی چلتے ہیں اور جس طرح دریا کے دونوں کنارے طویل ترین فاصلہ طے کرنے کے با وجود کہیں نہیں ملتے، اسی طرح اِن دونوں دھاروں کے درمیان بھی کہیں یکجائی نہیں ہوتی۔ والدین کو ابتدا ہی میں فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچے کو کسی دینی مکتب یا مدرسے کے حوالے کریں یا کسی اسکول میں اس کا داخلہ کرائیں۔ جدید تعلیم حاصل کرنے والا بچہ ڈاکٹر، انجینیئر، آرکیٹیکٹ یا کسی پروفیشن کا ماہر تو بن جاتا ہے لیکن اس کی دینی تعلیم واجبی سے بھی کم ہوپاتی ہے۔ دوسری طرف مدرسے سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والا عالم و فاضل ہو کر مسجد کی امامت اور مدرسے کی مسند ِصدارت سنبھالنے کے قابل تو ہو جاتا ہے لیکن تیز رفتار ترقیات سے معمور دنیا میں وہ خود کو اجنبی محسوس کرتا ہے، چنانچہ احساس کم تری کا شکار ہو جاتا ہے۔
اس صورتحال میں کئی سوالات ابھرتے ہیں۔ کیا تعلیم کی یہ تقسیم دینی اعتبار سے درست ہے؟ کیا ایک صالح، کار آمد اور انسانیت کے لئے مفید معاشرہ کی تعمیر کے لئے اس تقسیم کو نہ صرف گوارا بلکہ باقی رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے؟ اور سب سے بڑا سوال یہ کہ کیا مسلمانوں نے اپنے دورِ عروج میں اس تقسیم کو روا رکھا تھااور کیا انھوں نے مسلم بچوں اور بچیوں کے لئے دینی تعلیم کا الگ انتظام کیا تھا؟
اسلام علم کو’ ’دینی‘‘ اور ’’دنیاوی‘‘ خانوں میں باٹنے کا قائل نہیں۔ بنیادی دینی تعلیم، جس کے ذریعہ انسان دین کے تقاضوں پر عمل کر سکے، اسے اس نے ہر مسلمان کے لئے لازم قرار دیا ہے(طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم۔ابن ماجہ) اس کے بعد علم و معرفت کے تمام دروازے ہر شخص کے لئے کھلے ہوئے ہیں۔ وہ اپنی طلب، مواقع اور محنت کے مطابق ان سے فیض حاصل کر سکتا ہے۔ آج جن علوم کو خالص دینی علوم کہا جاتا ہے۔اگر کوئی شخص انھیں اس لئے حاصل کرتا ہے کہ ان کے ذریعہ دنیا کمائے، سماج میں اونچی پوزیشن حاصل کرے اور لوگ اس کے علم و فضل کے قصیدے پڑھیں تو اللہ کے رسول نے ایسے شخص کو وعید سنائی ہے اور فرمایا ہے کہ وہ جنت سے اتنا دور ہوگا کہ اسے اس کی خوشبو بھی نہ آسکے گی حالانکہ اس کی خوشبو میلوں دور سے محسوس ہوگی (من تعلّم علماً مماّ یبتغی بہ وجہ اللہ لا یتعلّمہ الا لیصیب بہ عرضاً من الدنیا، لم یجد عرف الجنۃ۔ابوداؤد)۔اس کے بر عکس آج جن علوم کو خالص دنیاوی علوم سمجھا جاتا ہے، اگر کوئی شخص انھیں اس لئے حاصل کرتا ہے کہ اس پر معرفت ِ خدا وندی کے اسرار کھلیں اور وہ ان کے ذریعہ خلقِ خدا کو فائدہ پہنچائے تو وہ اس پر ضرور بارگاہ الٰہی میں اجر و انعام کا مستحق ہوگا اور اس کا ٹھکانہ جنت میں ہوگا۔ قرآن کریم کی ایک آیت ہے :’’ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے بندوں میں سے صرف علم رکھنے والے لوگ ہی اس سے ڈرتے ہیں‘‘۔(فاطر28)۔
اس آیت میں’ ’خشیت الٰہی ‘‘سے بہرہ ور ہونے کا سہرا ’’علماء ‘‘ کے سر باندھا گیا ہے لیکن کون سے ’’علماء ‘‘ ؟ محض روایتی، قدیم، دینی علوم کے فیض یافتگان نہیں بلکہ تمام علوم سے شغف رکھنے والے لوگ۔ اس آیت سے متصل اس کا نصف اول ٹکڑا اور اس سے پہلے کی آیت ملاحظہ کیجیے :’’ کیا تم دیکھتے نہیں ہوکہ اللہ آسمان سے پانی برساتا ہے اور پھر اس کے ذریعے سے ہم طرح طرح کے پھل نکال لاتے ہیں، جن کے رنگ مختلف ہوتے ہیں اور پہاڑوں میں بھی سفید، سرخ اور گہری سیاہ دھاریاں پائی جاتی ہیں، جن کے رنگ مختلف ہوتے ہیں اور اسی طرح انسانوں اور جانوروں اور مویشیوں کے رنگ بھی مختلف ہیں۔‘‘(فاطر 28,27)۔
دیکھا جائے تو ان آیات میں علم موسمیات ،علم نباتات، علم طبقات الارض،علم بشریات اور علم حیوانات کی طرف اشارے موجود ہیں اور ان تمام کا شمار موجودہ اصطلاحات کے اعتبار سے جدید علوم میں ہوتا ہے۔
تعلیم گاہ کی خشت ِ اول مسجد نبوی میں بنے ہوئے چبوترے پر رکھی گئی تھی، جسے ہم ’’صفہ ‘‘ کے نام سے جانتے ہیں۔ وہاں بھی علم کی جامعیت کا تصور پیش کیا گیاتھا۔ اصحاب صفہ نہ صرف قرآن حفظ کرتے اور اللہ کے رسول کے ارشادات کو سن کر اپنے سینوں میں محفوظ کرتے تھے بلکہ لکھنا پڑھنا بھی سیکھتے اور فنونِ حرب کی بھی مشق کرتے تھے۔ غزوۂ بدر کے موقع پر جن سردارانِ مکہ کو گرفتار کیا گیا تھا ان کا فدیہ یہ قرار دیا گیا تھا کہ ہر شخص10 بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھادے۔ ظاہر ہے کہ ان اسیرانِ قریش نے دینی تعلیم نہ دی ہوگی۔ عہدِ اموی میں جب اسلامی مملکت کی سرحدیں وسیع ہو ئیں اور دیگر قوموں سے ربط و تعامل بڑھا تو اس زمانے کے مروّجہ علوم کو عربی زبان میں منتقل کرنے کی تحریک شرع ہوئی۔ یزید بن ابی سفیان کی وفات (م64ھ) کے بعد رواج دیے گئے دستور کے مطابق ان کے بیٹے خالد کو زمامِ اقتدار سنبھالنی تھی، لیکن اس کا علمی شغف اتنا زیادہ تھا کہ اس نے خلافت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ خالد بن یزید نے خود بھی بہت سی کتابوں کا ترجمہ کیا اور دوسروں سے بھی کروایا۔