مد
اسلامی ممالک میں سعودی عرب اور ایران ایک کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ مسلم امہ کے باہمی مسائل کو حل
کرنے کے لئے ان دو ممالک کے باہمی اشتراک کے امکانات اور اثرات کا جائزہ لیں۔
3
Answers
Answer:سعودی عرب ایران تعلقات بحالی؛ ’یہ عمل مسلم امہ کے لیے باعثِ تقویت ثابت ہو گا‘
وزیرِ اعظم عمران خان نے سوشل میڈیا پر ایک بیان میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ایران کے ساتھ اچھے تعلقات کے بیان پر کہا ہے کہ ایران ہمارا پڑوسی ملک اور سعودی عرب قریبی دوست ہے۔ پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے سعودی عرب کے ایران کے ساتھ امن کے بیان کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ عمل مسلم امہ کے لیے باعث تقویت ثابت ہوگا۔
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے گزشتہ دنوں ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ سعودی اور عرب ایران کے مفادات ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ریاض تہران کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں ہے۔
مشرق وسطیٰ کے دو مبینہ حریف ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری کے اشارے ایسے وقت میں مل رہے ہیں جب امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کو بحال کرنے کی کوشش کی ہے جس پر تہران نے 2015 میں عالمی طاقتوں کے ساتھ مل کر دستخط کیے تھے۔
وزیرِ اعظم عمران خان نے سوشل میڈیا پر ایک بیان میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ایران کے ساتھ اچھے تعلقات کے بیان پر کہا ہے کہ ایران ہمارا پڑوسی ملک اور سعودی عرب قریبی دوست ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان امن کی جانب یہ قدم امتِ مسلمہ کے لیے باعثِ تقویت ہو گا۔
مبصرین سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات میں بہتری کو خطے اور مسلم دنیا کے تناظر میں بڑی پیش رفت کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
اس سے قبل سعودی عرب اور ایران کے درمیان پانچ سال تک تعلقات منقطع رہنے کے بعد مراسم میں بہتری لانے کے لیے براہِ راست بات چیت کا آغاز ہوا تھا۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ کے ترجمان نے بھی سعودی عرب کے ایران کے ساتھ مفاہمت کے اقدام کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اسلام آباد کے تہران اور ریاض دونوں سے برادرانہ تعلقات ہیں۔
ہفتہ وار بریفنگ میں ترجمان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے ہمیشہ محاذ آرائی سے بچاؤ پر زور دیا ہے۔ اختلاف کو تناؤ میں بدلنے کی بجائے سیاسی و سفارتی طریقے سے حل کیا جانا چاہیے۔
ترجمان نے امید ظاہر کی کہ محمد بن سلمان کا اعلان کردہ امن عمل مسلم امہ کے اتحاد کا باعث بنے گا۔
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکہ میں بائیڈن انتظامیہ آنے کے بعد بدلتی عالمی صورتِ حال کے تناظر میں سعودی عرب اور ایران ایک دوسرے سے بات چیت پر مجبور ہوئے ہیں۔
سابق سفارت کار کار نجم الثاقب کہتے ہیں کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات میں بہتری پاکستان، مشرق وسطیٰ اور مسلم اُمہ کے مفاد میں ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ اس وقت خطے میں خفیہ مذاکرات کی کافی باز گشت ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان جب کہ ایران اور سعودی عرب میں بھی بات چیت کی خبریں زیرِ گردش ہیں اور نتیجتاً کچھ اقدامات بھی سامنے آ رہے ہیں۔
نجم الثاقب نے کہا کہ محمد بن سلمان کا ایران سے اچھے تعلقات چاہنے کا بیان پورے خطے کے لیے بڑی خوش خبری ہے۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ سعودی ولی عہد نے یہ نہیں کہا کہ مسائل حل ہو گئے ہیں۔تعلقات میں اُتار چڑھاؤ کی تاریخ، کیا اب پاکستان اور ایران کی قربتیں بڑھ رہی ہیں؟
وہ کہتے ہیں کہ 2018 میں یہی محمد بن سلمان آیت اللہ خامنہ ای کو ہٹلر کہتے ہیں اور اب 2021 میں تعلقات میں بہتری کی خواہش کا بیان واضح کرتا ہے کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات واقعی بہتر ہو رہے ہیں۔
نجم الثاقب نے کہا کہ پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان مئی کے دوسرے ہفتے میں دو روزہ دورے پر ریاض جا رہے ہیں۔ جہاں خطے کی صورتِ حال میں ایران سعودی عرب تعلقات پر بھی گفتگو ہو گی۔
Answer:
پچھلی دہائی کے دوران، مشرق وسطیٰ میں تسلط کے لیے ایران اور سعودی عرب کے درمیان جدوجہد نے تقریباً ہر علاقائی مسئلے کو جنم دیا ہے، جس نے بین الاقوامی اتحاد کو توڑا ہے اور پورے خطے میں جنگیں جاری رکھی ہیں، جبکہ دونوں طاقتوں کے درمیان براہ راست تصادم کا خدشہ پیدا کیا ہے۔ امریکہ کو شامل کریں اب ایسا لگتا ہے کہ دونوں فریقین تصادم کے لیے سفارتی محاذ کی تلاش کر رہے ہیں، خطے میں کشیدگی کو کم کرنے کی طرف وسیع تر تبدیلی کے درمیان۔
Explanation:
- سعودی عرب نے شاہ سلمان کے طاقتور بیٹے محمد بن سلمان کے 2017 میں ولی عہد مقرر کیے جانے کے بعد اپنی علاقائی مہم جوئی میں اضافہ کیا۔ حمایت یافتہ حکومتیں اور غیر ریاستی مسلح گروہ جو کئی مواقع پر دونوں حریفوں کے درمیان براہ راست دشمنی کے خطرناک حد تک قریب پہنچ چکے ہیں۔ 2019 میں سعودی تیل کی تنصیبات پر ایک درست میزائل اور ڈرون حملے کا بڑے پیمانے پر ایران پر الزام لگایا گیا تھا۔ اور ٹرمپ انتظامیہ کا تہران کے ساتھ محاذ آرائی کا انداز جنوری 2020 میں امریکہ اور ایران کو جنگ کے دہانے پر لے آیا جس کے براہ راست اثرات ریاض پر پڑے۔
- ایران-سعودی عرب پراکسی تنازعہ، جسے بعض اوقات مشرق وسطیٰ کی سرد جنگ بھی کہا جاتا ہے، ایران اور سعودی عرب کے درمیان مشرق وسطیٰ اور دیگر مسلم خطوں میں اثر و رسوخ کے لیے جاری جدوجہد ہے۔
- دو تلخ حریفوں ایران اور سعودی عرب کے درمیان تصادم نے مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک اور کئی علاقائی اور بین الاقوامی اسلامی تنظیموں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، جیسے کہ عرب ریاستوں کی لیگ، خلیج تعاون کونسل اور اسلامی تعاون کی تنظیم (OIC)۔
اس طرح یہ جواب ہے.
#SPJ3